مولانا یوسف اصلاحی (پیدائش: 9/جولائی 1932ء)
ہندوستان کے ایک معروف داعئ اسلام اور علمی و دینی شخصیت آج بروز منگل 21/دسمبر 2021ء کی صبح انتقال کر گئی۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
حالیہ عرصہ میں، نامور علمی و دینی ہندوستانی شخصیات میں ڈاکٹر لقمان سلفی (جامعہ امام ابن تیمیہ، بہار کے موسس) (وفات: 5/مارچ 2020ء) اور مفکر اسلام امیر شریعت (بہار اوڈیشہ و جھارکھنڈ) مولانا سید محمد ولی رحمانی (وفات: 3/اپریل 2021ء) کے بعد اب اس تیسری ممتاز مذہبی شخصیت نے دنیائے فانی کو الوداع کہا ہے۔
ذاتی طور پر مولانا سے میری غائبانہ واقفیت کوئی تین حوالوں سے رہی ہے۔ مدیر "ذکریٰ" ڈائجسٹ، مصنفِ کتاب "آدابِ زندگی" اور جماعت اسلامی سے وابستہ ایک ممتاز علمی و دینی شخصیت۔
اچھی طرح یاد ہے کہ بچپن (70ء اور 80ء کی دہائی) میں ہمارے گھر ادارۂ الحسنات کے رسائل نور اور الحسنات کے ساتھ ذکریٰ بھی آتا تھا۔ پھر شعور آنے پر ایک قریبی بزرگ عزیز نے "آدابِ اندگی" کا تحفہ دیا تو کتاب کے مطالعے نے اس قدر متاثر کیا کہ ازاں بعد میں نے اپنے کچھ دوستوں کو یہی کتاب (اردو/انگریزی ایڈیشن) ان کی شادی کی موقع پر تحفہ میں دی۔
مجھے تو ابھی ابھی برادرم ابوفہد کے مضمون سے معلوم ہوا کہ مولانا نے اپنی یہ مقبول عام تصنیف جس وقت تحریر کی تھی اس وقت ان کی عمر بیس-بائیس برس تھی۔ جبکہ میں نے یہ کتاب پہلی بار اٹھارہ انیس برس کے دوران پڑھی تھی۔ ابوفہد نے یہ بات بالکل صحیح لکھی ہے کہ:
"یہ کتاب گرچہ عمر کے اس حصے میں لکھی گئی، جو عموماً پڑھنے اور سیکھنے کا حصہ ہوتا ہے، مگر اس کتاب نے کامیابی کے کئی ریکارڈ بنائے اور تصنیف و تالیف کے میدان میں اپنی خاص پہچان اور جگہ بنائی، جو آج تک بھی قائم اور باقی ہے۔"
سعودی عرب قیام کے دوران اکثر و بیشتر یہ طریقہ کار رہا کہ وہاں سے کچھ اردو کتب خرید لاتا تو انہیں حیدرآباد کے دوست احباب میں تقسیم کرتا اور اسی طرح حیدرآباد سے واپسی پر چھتہ بازار کے مکتبہ جماعت اسلامی سے خریدی گئی کتب ریاض کے اپنے کچھ دوست احباب کی خدمت میں پیش کرتا۔ مکتبہ جماعت اسلامی کی ہر وزٹ پر "آداب زندگی" کا ایک نسخہ ضرور خریدنے کی عادت رہی تھی۔ ایک مرتبہ مکتبہ میں داخل ہوا تو وہاں کے ایک اہلکار نے مجھے دیکھتے ہی بغیر سلام کلام کے کہہ دیا: "معذرت بھائی صاحب، اس بار 'آداب زندگی' کا کوئی نسخہ موجود نہیں!"
یہ دلچسپ "سانحہ" میں عرصے تک اپنے دوستوں کو مزے لے لے کر سناتا رہا۔
(کتاب و سنت لائبریری پر یہ کتاب پی۔ڈی۔ایف شکل میں موجود ہے۔)
مولانا مرحوم کی غالباً نصف صد تصانیف شائع ہو چکی ہیں جن میں سے تقریباً کے نام ابوفہد نے اپنے مضمون میں درج کیے ہیں۔
واضح رہے کہ اکتوبر 1972ء میں رامپور (اتر پردیش) سے ماہنامہ ذکریٰ کا پہلا شمارہ منظر عام پر آیا تھا، جس کی ٹیگ لائن تھی:
"مردوں، عورتوں، طلبہ اور طالبات کے لیے ایک پاکیزہ ڈائجسٹ"
32 سالہ اشاعتی تسلسل کے بعد، سن 2004ء میں ذکریٰ کا نام بدل کر "ماہنامہ ذکریٰ جدید" کیا گیا اور اسی نئے نام سے جنوری یا اپریل 2004ء میں، رامپور کے بجائے دہلی سے اولین شمارے کی اشاعت عمل میں آئی۔ جامعۃ الصالحات (رامپور) جیسے ممتاز ادارہ کی انتظامی ذمہ داریوں اور دیگر مصروفیات کے سبب "ماہنامہ ذکریٰ جدید" کی ادارت میں ان کے فرزند سلمان اسعد معاونت کا فریضہ نبھاتے رہے ہیں۔
ذکریٰ کے دورِ جدید کی جلد اول کا ایک شمارہ (اگست:2004ء)، مولانا مرحوم کو بطور خراجِ عقیدت، قارئین کی خدمت میں آج تعمیرنیوز پر پیش کیا جائے گا۔
ایک کامیاب اور فلاح یافتہ زندگی گزارنے کے لیے کتابوں کا مطالعہ یقیناً کارآمد اور مفید ثابت ہوتا ہے۔ اور عہد حاضر میں جب مطالعۂ کتب کا رجحان ہی کم بلکہ ناپید ہوتا جا رہا ہے تو ایسی صورتحال میں سوشل میڈیا پر بعض نوجوان داعیان دین کے کچھ عجیب و غریب مطالبے اور مشورے کوفت میں مبتلا کرتے ہیں۔ علمی و دینی شخصیات اور ان کی تصانیف کی جائز تعریف، مستحسن اور کشادہ دلی و وسیع الظرفی کی علامت ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ قطعاً نہیں ہوتا کہ یہ شخصیات سراسر معصوم اور ان کی تمام تصانیف قابل اعتبار ہوتی ہیں۔
کسی بھی کتاب کا، اور بالخصوص علمی و مذہبی کتب کا قاری کوئی عام آدمی نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک باشعور اور ذہین فرد ہوتا ہے۔ ایسے قارئین پر 'نہی عن المنکر' کی آڑ میں آمریت نما دھونس جمانا کہ فلاں فلاں شخصیت یا ان کی تصانیف کا مطالعہ گمراہی کی طرف لے جائے گا۔۔۔ قابل تشویش معاملہ ہے۔
بالفرض کسی کتاب سے گمراہی پھیلنے کا اندیشہ ہو تو دعوتِ دین کا درد رکھنے والے داعیان کا فرض ہے کہ متعلقہ کتاب کے رد میں مضامین یا کتب لکھیں یا پہلے سے موجود ردود کے حوالے دیں یا آڈیو ویڈیو میڈیا کا سہارا لیں۔ اور ایسا ہر زمانے میں ہوتا آیا بھی ہے۔
ذاتی طور پر مجھے یہ کہنے میں باک نہیں کہ جماعت اسلامی کے کچھ افکار و نظریات سے مجھے بہت اختلاف رہا ہے، مگر یہ ماننے میں مجھے بالکل بھی تامل نہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کے نوجوان طبقہ کو دین کی طرف پلٹانے اور انہیں کثیر الجہتی سماج کا ایک فعال اور موثر حصہ بنانے میں اس جماعت کی کارکردگی کسی شبہ سے بالاتر رہی ہے۔
اسی طرح جماعت کے موسس مولانا مودودیؒ کا بھی معاملہ ہے۔ ان کی ایک کتاب انتہائی قابل اعتراض سہی، مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم قاری کو پردہ، سود، جہاد، جبر و قدر، زکوٰۃ، قومیت، حقوق الزوجین جیسی اہم و مفید کتب کے مطالعے سے تک روک دیں۔ بےشک استخفافِ حدیث کے میدان میں مولانا علیہ الرحمہ کا بھی نام لیا جاتا ہے مگر ۔۔۔ انہی مولانا کی کتاب "سنت کی آئینی حیثیت" بھی ہر مکتب فکر کی علمی و مذہبی شخصیات کے نزدیک ویسے ہی مستند و معتبر ہے جیسے حافظ نذر احمد کا ترجمۂ قرآن ہر مسلک کے نزدیک۔
آخر میں مولانا یوسف اصلاحی کے لیے دعائے مغفرت کے ساتھ، وہ چند فقرے یہاں پیش ہیں، جو ان کی مقبول عام کتاب "آداب زندگی" کے تعارف/پیش لفظ میں بیان ہوئے ہیں۔۔۔
ادب و سلیقہ، وقار و شائستگی، نظافت و پاکیزگی، تمیز و حسنِ انتخاب، ترتیب و تنظیم، لطافتِ احساس و حسنِ ذوق، عالی ظرفی اور شرافتِ طبع، ہمدردی اور خیرخواہی، نرم خوئی اور شیریں کلامی، تواضع اور انکساری، ایثار و قربانی، بےغرضی اور خلوص، استقلال و پامردی، فرض شناسی اور مستعدی، خدا ترسی اور پرہیزگاری، توکل و جراتِ اقدام ۔۔۔
یہ اسلامی زندگی کے وہ دلکش خد و خال ہیں، جن کی بدولت مومن کی بنی سنوری زندگی میں وہ غیرمعمولی کشش اور وہ اتھاہ جاذبیت پیدا ہو جاتی ہے کہ نہ صرف اہلِ اسلام بلکہ اسلام سے ناآشنا بندگانِ خدا بھی بےاختیار اس کی طرف کھنچنے لگتے ہیں!
*****
© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
21/دسمبر/2021
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں