© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
20/دسمبر/2021
*****
انڈیا کے ناشرین بیسویں صدی کی آٹھویں/نویں دہائی کے دوران پاکستانی کتب کے عکسی ایڈیشن (جن میں تاج کمپنی لاہور کے قرآن مجید کے عکسی ایڈیشن کی بلا اجازت اشاعت والی 'مقدس چوری' بھی شامل ہے) بےتحاشا شائع کیا کرتے تھے۔
راقم نے اپنے کالج تعلیمی دور میں، یعنی 1986-89 میں ایم۔ اے۔ راحت کی کچھ کتب خریدی تھیں۔ جن میں سے ایک ناول "باغی" کی دو جلدیں ہیں۔ فی جلد 25 انڈین روپے میں تھی۔
محی الدین نواب کے بعد پاپولر لٹریچر میں ایم۔ اے۔ راحت میرے پسندیدہ قلمکار تھے۔ ان کی متعدد طویل کہانیاں، ناولٹ اور ناول پڑھے ہیں۔ رسالہ 'ھما' نئی دہلی میں جب ان کے ناول "بانگڑو" کی اشاعت شروع ہوئی تو ایک علاقائی رسالے کے مدیر کی فرمائش پر میں نے ہر قسط کی تلخیص لکھنے کی حامی بھری تھی۔۔۔ اور دو اقساط کی تلخیص بذریعہ ڈاک ارسال بھی کی تھی۔۔۔ جو مدیر موصوف نے اپنی کاہلی کی بنا شائع نہیں کی۔ یہ شاید 1988 کی بات ہے جب اس ناچیز کی عمر 20 سال تھی۔
خیر۔۔۔ ناول "باغی" آج بھی میرے ذاتی کتب خانے میں محفوظ ہے، مگر اسے دوبارہ پڑھنے کا حوصلہ تو ہے نہیں۔ پھر بھی پہلے صفحہ کا پہلا پیراگراف ذیل میں پڑھیے گا، جو اب بھی مجھے پرلطف لگتا ہے۔
*****
ناول: باغی
مصنف: ایم۔ اے۔ راحت
ناول کا مختصر تعارف: تجسس اور بےاعتمادی، کبھی کبھی انسان کو غیر معتبر کر دیتی ہے اور وہ اپنی افتادِ طبع اور مشکوک صفت سے مجبور ہو کر اپنے آپ کو دوسروں کی نظروں سے گرا دینے کا عبرتناک کام خود انجام دیتا ہے۔
___
تعلق بارہ بنکی سے تھا لیکن خود کو لکھنوی سمجھتے تھے۔ لکھنؤ کی سی شائستگی اپنالی گئی تھی اور پھر یہ ایسی مسلط ہوئی کہ بارہ بنکی بھول گئے اور لکھنو یاد رہ گیا۔ حسام احمد البتہ دنیاساز نہ تھے، لکھنؤ کو بارہ بنکی پر ترجیح نہیں دیتے تھے اور شستہ گفتگو میں بھی کبھی کبھی اپنے مخصوص حملے بول جاتے تھے۔ یوں بھی انھوں نے کسی سے نہ کہا کہ ان کا تعلق لکھنؤ سے ہے۔ کھرے آدمی تھے کھری بات کرتے تھے۔
لیکن ان کے باتیں کرنے کا دور گزر چکا تھا۔ پاکستان آئے تو ان خوش نصیبوں میں سے تھے جو بہت کچھ ساتھ لے آئے تھے۔ بارہ بنکی میں بھی چار گاؤں کے مالک تھے اور بڑے لوگوں میں شمار ہوتے اور ۔۔۔ نواب جی کہلاتے تھے۔ یہاں بھی عیش و عشرت میں گزری اور کوئی مشکل پیش نہیں آئی۔ چھوٹی چھوٹی چند فیکٹریاں لگائیں، اپنے شوروم بنائے اور چار گاؤں میں بھی آباد ہو گئے۔ رہے نواب جی کے نواب جی۔ لیکن اب بوڑھے ہو گئے تھے۔ ایک ہی بیٹا تھا جسے اعلی تعلیم دلائی تھی اور جب وہ تعلیم سے فارغ ہوا تو سب کچھ اسے سونپ کر سبکدوش ہو گئے ۔۔۔
نوجوانی میں بھی رنگیلے رہے تھے۔ آج بھی مست تھے۔ عمر ستر کے پیٹے میں تھی لیکن قوی جوانوں سے مضبوط تھے۔ رنگ سرخ و سپید تھا، حواس خمسہ پوری طرح بیدار تھے۔ کوئی کمی نہیں آئی تھی۔ کمر جوانوں کی طرح سیدھی تھی۔ بتیسوں دانت موجود تھے۔ حسن پرست شروع سے تھے۔ آج بھی تانک جھانک سے باز نہ آتے تھے۔
اور شمس النساء بیگم ہمیشہ کی طرح آج بھی ان کی کڑی نگرانی کرتی تھیں، لیکن ساری جوانی شوہر کے جُل میں آتی رہی تھیں۔ اب اس بڑھاپے میں ان کی کیا نگرانی کر پاتیں۔ جاسوسی ناول اور کہانیاں پڑھنے کے شائق تھے اور ٹیلی ویژن پر جاسوسی فلمیں دیکھتے تھے۔ یہ تھے قبلہ حسام احمد نواب جی۔
***
نوٹ:
یہ پورا پیراگراف میں نے خود سے کمپوز نہیں کیا ہے۔ بلکہ موبائل کے "گوگل لینس ایپ" سے مدد لی ہے۔ امیج ٹو ٹیکسٹ۔ 80 فیصد متن درست ملا، باقی پروف ریڈنگ کے ذریعے سدھارنا پڑا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں