مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
9/ستمبر/2021
*****
یادوں کا گویا سمندر ابال پر ہے کہ لہریں ماضی کو لیے بپھری چلی آتی ہیں۔ آنکھیں تین دہائی پیچھے لوٹ کر کچھ یادگار مناظر کو بادیدۂ نم تک رہی ہیں۔
اردو (پوسٹ گریجویشن) کے چند طلبا اور کچھ ادب دوست نوجوان۔۔۔ نیا خون نیا جوش نیا ولولہ۔۔۔ دنیائے ادب کو تسخیر کر لینے کے جذبۂ جنوں سے سرگرم۔۔۔ مگر پھر شہر کا وہی روایتی ادبی چشمک اور گروہ واری سازشوں کا ماحول۔۔۔ ایسے میں کون اپنی انجمن میں نئے خون کو خوش آمدید کہتا؟
مگر یکایک ایک استاذِ معظم ہم نوجوانوں کی دلجوئی کو سامنے آتے ہیں اور مشورہ دیتے ہیں کہ تم لوگ بھی اپنی علیحدہ انجمن قائم کرو، میرا مکمل تعاون تم سب کے ساتھ رہے گا۔ یوں عمل میں آتی ہے نوجوانوں کی ایک ادبی تنظیم:
ینگ رائٹرس لٹریری اسوسی ایشن، حیدرآباد۔
جس کے صدر جاوید محی الدین، نائب صدر عظیم قریشی اور جنرل سکریٹری راقم الحروف (مکرم نیاز) منتخب ہوئے۔
اور انجمن کا پہلا ہی اجلاس ہم نے متفقہ رائے سے طے کیا کہ اپنے مربی کی تہنیتی تقریب کے بطور منعقد کیا جائے۔
ہمارے اس مربی کا نام تھا: ڈاکٹر بیگ احساس۔
جنہوں نے انہی ایام میں جامعہ عثمانیہ کے شعبۂ اردو میں ترقی پا کر لکچرار سے ریڈر کے عہدہ کا جائزہ حاصل کیا تھا۔
بروز بدھ 26/فروری 1992، یعنی آج کی تاریخ سے تقریباً 30 سال قبل ۔۔۔
۔۔۔ شہر حیدرآباد میں ادبی جلسوں اور سمیناروں کے ایک باوقار مقام سر ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ (عابڈز) میں شام کے وقت ہماری نومولود ادبی تنظیم نے ڈاکٹر بیگ احساس کے اعزاز میں ایک تہنیتی تقریب کا اہتمام کیا۔
کسی نئے اور اجنبی ادارہ کے داعی ہونے کے باوجود غالباً اس زمانے کی وہ واحد ایسی کامیاب ادبی تہنیتی تقریب تھی جس میں ہر شعبۂ حیات سے تعلق رکھنے والے افراز نے جوق در جوق شرکت کی۔ تقریب کی بھرپور پذیرائی یقیناً صاحبِ تقریب کی حرکیاتی اور کرشماتی شخصیت کے باعث تھی۔
نہ وہ دور کمپیوٹر کا تھا اور نہ موبائل کا ۔۔۔ ادبی تقاریب میں ویڈیو گرافی بھی خال خال ہی کی جاتی تھی۔ اور تصاویر کے لیے صرف اخباری رپورٹرز اپنے کیمروں کے ساتھ حاضر ہوتے تھے۔ لہذا آج ہمارے پاس اس یادگار تقریب کے حوالے سے جو کچھ بھی دستاویز ہے وہ محض اخباری تراشے ہیں۔
وہی تراشے اپنے مرحوم استاذ کی یاد میں، آج ناچیز یہاں پیش کر رہا ہے۔ تاکہ دنیا جانے کہ ۔۔۔ یہ دو چار برس کا قصہ نہیں ۔۔۔ پروفیسر بیگ احساس کی شخصیت و فن کی مقبولیت برسہا برس سے قائم رہی ہے!
نوٹ:
راقم الحروف نے تقریب کی روداد کے نہ صرف اخباری تراشے محفوظ رکھے بلکہ اس تقریب میں کی گئی اپنی خیرمقدمی تقریر کا عکس بھی۔ مکمل روداد اور خیرمقدمی تقریر ذیل میں درج کی جا رہی ہیں۔
ڈاکٹر بیگ احساس: فرض شناس، مشفق اور دردمند دل رکھنے والے استاد
ینگ رائٹرس لٹریری اسوسی ایشن کے زیراہتمام تہنیتی جلسہ سے پروفیسر سیدہ جعفر و پروفیسر اشرف رفیع کا خطاب
ڈاکٹر بیگ احساس ایک فرض شناس، مشفق استاد اور دردمند دل رکھنے والے فنکار ہیں۔ طلبا اور طالبات میں بےحد مقبول ہی، پیشہ تدریس سے انہیں گہری دلچسپی ہے۔ افسانوں کی دنیا میں وہ ایک اونچے درجے پر فائز ہیں۔ جدید افسانہ جو پیچیدگی کی وجہ سے بدنام ہے، نئی نسل میں اسے مقبولیت عطا کرنے میں بیگ احساس نے ایک اہم رول ادا کیا ہے۔ نئے لکھنے والے طلبا اور طالبات کی وہ ہمت افزائی کرتے ہیں اور مفید مشوروں سے نوازتے ہیں۔
پروفیسر سیدہ جعفر صدر شعبۂ اردو حیدرآباد یونیورسٹی نے ان خیالات کا اظہار ڈاکٹر بیگ احساس کے اعزاز میں منعقدہ تہنیتی تقریب میں کیا۔ اس تقریب کا اہتمام ینگ رائٹرس لٹریری اسوسی ایشن نے، جو نوجوان قلمکاروں کی تنظیم ہے، 26/فروری بروز چہارشنبہ 6/ بجے شام ہنری مارٹن انسٹی ٹیوٹ میں کیا۔
ابتدا میں سید مکرم نیاز جنرل سکریٹری اسوسی ایشن نے مہمانوں کا خیرمقدم کیا اور اسوسی ایشن کے اغراض و مقاصد سے واقف کروایا۔ انہوں نے کہا کہ اسوسی ایشن اپنے ایک محسن کا خیرمقدمی جلسہ کرتے ہوئے بےحد مسرت محسوس کر رہی ہے۔ ڈاکٹر بیگ احساس کا بھرپور تعاون اسوسی ایشن کو حاصل ہے۔
جاوید محی الدین صدر اسوسی ایشن نے "میرا آئیڈیل: ڈاکٹر بیگ احساس" کے عنوان سے خاکہ پیش کیا۔ انہوں نے دلچسپ انداز میں بیگ احساس کا سراپا کھینچا اور ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ میں بیگ احساس کی شخصیت سب سے نمایاں ہے۔ وہ طلبا میں مایوسی پیدا ہونے نہیں دیتے اور ان کے لکچر اتنے دلنشین ہوتے ہیں کہ طالب علم اسے کبھی بھول نہیں سکتا۔ بیگ احساس طلبا کے ذاتی مسائل میں بھی بھی دلچسپی لیتے ہیں۔
عظیم قریشی نائب صدر اسوسی ایشن نے ایک خاکہ "بیگ احساس: ایک جامع شخصیت" پیش کیا۔ انہوں نے بیگ احساس کی زائد از نصابی سرگرمیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ بیگ احساس کی نگرانی میں تعلیمی ٹور پر گئے تھے تو کوئی یہ یقین کرنے کو تیار ہی نہیں تھا کہ بیگ احساس ان کے ساتھی نہیں لکچرار ہیں۔ انہوں نے بیگ احساس کی کالم نگاری اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ شگفتہ برتاؤ کی مثالیں پیش کیں۔
محترمہ صبیحہ نسرین لکچرار ویمنس کالج نے ایک تہنیتی نظم پیش کی۔
ڈاکٹر عقیل ہاشمی نے کہا کہ ڈاکٹر بیگ احساس کو میں اس وقت سے جانتا ہوں جبکہ نہ وہ استاد تھے اور نہ میں۔ ڈاکٹر بیگ احساس کے اندر ایک فنکار چھپا ہے۔ جو اپنے اظہار کے لیے بےچین رہتا ہے۔ یہ فنکار کبھی اسکیچ بناتا ہے، کبھی کسی شخصیت کی نقل اتارتا ہے اور کبھی افسانوں اور کالم نگاری کے ذریعے اپنے جوہر کا اظہار کرتا ہے۔
جناب غیاث متین نے کہا کہ غالب نے دنیا کو بازیچۂ اطفال کہا تھا اور دنیا کو انہوں نے تماش بین کی طرح دیکھا تھا۔ بیگ احساس تماش بین نہیں بلکہ اس کھیل میں خود شریک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بیگ احساس میں صبر و تحمل ہے شاید اس لیے کہ وہ ایک زمانے میں فٹبال کے اچھے کھلاڑی رہ چکے ہیں۔ بیگ احساس کی شخصیت موہنی ہے۔ ان سے کوئی گفتگو کرے تو پھر اس سحر میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ جو لوگ بیگ احساس کے بارے میں غلط فہمی کا شکار رہتے ہیں دراصل انہیں قریب سے جانتے نہیں۔
ڈاکٹر بیگ احساس نے اپنی تقریر میں کہا کہ انہیں اپنے اساتذہ کی بھرپور شفقت ملی ہے اور بحیثیت استاد طلبا کا خلوص اور پیار بھی ملا ہے۔ جنہیں لوگ ان کی خوبیاں سمجھتے ہیں وہ اصل میں اساتذہ اور ساتھیوں کی خوبیوں کا پرتو ہے۔ انہوں نے اپنے تدریسی تجربات اور اپنے ہونہار طلبا کا تفصیلی تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پیشہ تدریس ایک مقدس پیشہ ہے اور شاگرد اولادِ معنوی کا درجہ رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں شعبہ اردو میں اتنا خوشگوار ماحول ملا کہ کبھی انہیں محسوس نہیں ہوا کہ وہ ملازمت کر رہے ہیں، پورا شعبہ ایک خاندان کی طرح رہتا ہے۔
پروفیسر اشرف رفیع نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا بلاشبہ بیگ احساس ہمارے شعبے کے مقبول استاد ہیں۔ وہ بڑے شوق اور دلچسپی سے پڑھاتے ہیں اور طلبا ان کے لکچر کو یاد رکھتے ہیں۔ بین جامعاتی مقابلے ہوں کہ سمینار، بیگ احساس پوری دلچسپی سے حصہ لیتے ہیں۔ وہ بڑے اچھے افسانہ نگار ہیں، ان میں بڑا ضبط اور تحمل ہے۔ انتہائی درجہ ناگفتہ بہ حالات میں بھی وہ صبر و سکون کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ان کی مقبولیت کا سب سے بڑا ثبوت یہ کھچاکھچ بھرا ہوا ہال ہے۔ اس میں ہر عمر کے لوگ موجود ہیں۔ ان کے سابق استاد، ان کے ساتھی، ان کے اسکالر، ان کے اسٹوڈنٹ، ان کے پرستار سبھی موجود ہیں۔ ایک استاد کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہی ہے کہ اس کے شاگرد اس سے پیار کریں۔ انہوں نے بیگ احساس کے تابناک مستقبل کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔
محمد امجد علی نے ایم۔اے سال آخر و اول کے طلبا کی جانب سے اپنے احساسات کا اظہار کیا۔ محمد جعفر نے ایم۔اے کے طلبا کی جانب سے ڈاکٹر بیگ احساس کی گلپوشی کی۔ مسرت فاطمہ نے اسوسی ایشن کی جانب سے گلپوشی کی۔ مختلف طلبا کی جانب سے ان کی بکثرت گلپوشی کی گئی۔ کنوینر جلسہ عظیم قریشی نے عمدگی سے کاروائی چلائی اور شکریہ ادا کیا۔ اس موقع پر سارا ہال کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔
خیر مقدمی تقریر از: مکرم نیاز
ڈاکٹر بیگ احساس کے اعزاز میں ترتیب دی گئی اس تقریب میں مہمان خصوصی پروفیسر سیدہ جعفر صاحبہ صدر شعبۂ اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد، صدر جلسہ پروفیسر اشرف رفیع صدر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ، ڈاکٹر بیگ احساس ریڈر شعبہ اردو جامعہ عثمانیہ، ڈاکٹر عقیل ہاشمی، جناب غیاث متین اور معزز حاضرین کا، ینگ رائٹرس اسوسی ایشن کی جانب سے میں دلی خیرمقدم کرتا ہوں۔
پروفیسر سیدہ جعفر صاحبہ نے اپنی گوناگوں مصروفیات اور شعبہ اردو حیدرآباد یونیورسٹی کی بھاری ذمہ داریوں کے احساس کے باوجود اس تقریب میں مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کرنا قبول فرمایا جس کے لیے ہم ینگ رائٹرس لٹریری اسوسی ایشن کے اراکین ان کے بےحد شکرگزار ہیں۔
سامعین! جیسا کہ آپ جانتے ہیں پروفیسر سیدہ جعفر صاحبہ دکن کی مایہ ناز محقق کہلائی جاتی ہیں، ان کے نام و کام سے ساری اردو دنیا صرف واقف ہی نہیں معترف بھی ہے۔ پروفیسر صاحبہ کو یہ فخر حاصل ہے کہ ان کے ہونہار شاگرد دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اور آج پروفیسر سیدہ جعفر صاحبہ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہو رہا ہے کہ انہی کے ایک لائق و فائق شاگرد کے اعزاز میں یہ تقریب منعقد کی جا رہی ہے۔
حاضرین! اس تقریب کی صدارت کے لیے ہم نے پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ کو مدعو کیا ہے۔ چونکہ پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ شعبۂ اردو جامعہ عثمانیہ کی صدر ہونے کے ناتے ڈاکٹر بیگ احساس کو بخوبی جانتی ہیں اس لیے ہمیں یقین ہے وہ ان کی شخصیت، ان کے فن اور ان کے طریقۂ معلمی پر زیادہ بہتر اور کامل طور پر اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں گی۔
سامعین اکرام! ینگ رائٹرس لٹریری اسوسی ایشن کا قیام اس بات کا واضح اعلان ہے کہ نوجوان نسل اردو ادب و شاعری سے نابلد نہیں ہے۔ ہم نے اس انجمن کے ذریعے کالج کے طلبا و طالبات اور دیگر ادب دوست نوجوانوں کے لیے ایک ایسا پلاٹ فارم مہیا کیا ہے جہاں سے وہ اپنی ادبی صلاحیتوں کا بھرپور اظہار کر کے اپنی تخلیقی قوتوں کو جلا بخش سکتے ہیں۔
ہم ینگ رائٹرس لٹریری اسوسی ایشن کے اراکین کو بےحد خوشی ہے کہ ہماری انجمن کا سب سے پہلا جلسہ اپنے مشفق استاذ، اپنے مخلص صلاح کار ڈاکٹر بیگ احساس کے اعزاز میں منعقد کیا جا رہا ہے حالانکہ خود ہمارے استاد نے اس تقریب کے انعقاد کو روکنے کی کوشش کی۔ ان کا خیال تھا بلکہ ہے کہ ترقی تو ایک نہ ایک موڑ پر ہر کسی کو ملتی ہی ہے اور یہ کوئی اتنی خاص بات نہیں۔
مگر ڈاکٹر بیگ احساس کے تئیں اپنی بےپناہ محبت، دوستانہ خلوص اور شاگردانہ احترام کا تقاضا تھا کہ ہم ان کی ترقی کی خوشی میں ایک تقریب کا اہتمام کریں اور ہمیں یہ جان کر مسرت ہوئی کہ ڈاکٹر بیگ احساس نے بھی ہمارے مخلصانہ اور گرمجوشانہ جذبات کا خیال رکھتے ہوئے بالآخر ہماری تجویز پر رضامندی کا اظہار کیا جس کے لیے ہم ان کے انتہائی درجہ مشکور ہیں۔
سامعین! میں ڈاکٹر بیگ احساس کی زیادہ تعریف اس لیے نہیں کروں گا کہ ابھی کچھ دیر میں آپ ان کی شخصیت پر چند خاکے سن ہی لیں گے۔ اب میں آپ کا زیادہ وقت نہ لیتے ہوئے اس جلسہ کے کنوینر سید عظیم قریشی سے گذارش کرتا ہوں کہ وہ جلسہ کی کاروائی کو آگے بڑھائیں۔
Prof Baig Ehsas felicitation function in 1992, News report.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں