یہ ممبئی کے متوطن قلمکار، شاعر اور فلمساز شاہد سید کا ایک افسانہ ہے جو 10/مارچ 1990ء کے روزنامہ "انقلاب" (ممبئی) میں شائع ہوا تھا۔ تیس برسوں میں دنیا زیادہ نہیں بدلی ۔۔۔
اپنی فیس بک ٹائم لائن پر اخبار کا یہی تراشہ شئر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ۔۔۔
اس کہانی کا ہیرو (شاید وہ میں ہی رہا ہوں) برہمی کے عالم میں اپنے ہم جماعتوں سے کہتا ہے کہ وہ یا تو ہندوستان کو تبدیل کر دے گا یا اپنے نظریات کے حامل ملک کو منتقل ہو جائے گا۔ 33/ سال گزر گئے اور آج میں یہ جان کر حیران ہوں کہ اس وقت میں کوئی فکشن لکھ اور شائع نہیں کر رہا تھا، بلکہ وہ شاید میری اپنی ہی تقدیر تھی۔
نوٹ:
شاہد پرویز سید کا اولین شعری مجموعہ "آئینے حیران ہیں" حال میں منظر عام پر آیا ہے، جو مصنف سے رابطہ کر کے خریدا جا سکتا ہے۔
رابطہ نمبر: 00919967767687
ایمیل: shahidsayed@gmail.com
آج پھر لائبریری میں پڑھائی کرتے ہوئے اس کی یاد آ گئی۔۔۔
کیا پتہ وہ کیوں مجھے پچھلے کئی دنوں سے لگاتار یاد آ رہا ہے؟
اور لائبریری ہی نہیں، اسٹوڈنٹ سنٹر، سول انجینئرنگ لیب، روڈرف، ڈائیننگ ہال اور مشہور وارسٹی کی اسٹوڈنٹ کی بھیڑ میں بھی وہ مجھے کسی نہ کسی طرح یاد آ جاتا۔
کیا بات تھی اس نوجوان میں، جو مجھ پر اتنا گہرا تاثر چھوڑ گیا ہے؟ شاید اس کا آئیڈیلزم (Idealism)؟ مگر یہ تو ہندوستان کے ہر نوجوان کے پاس ہے۔
اس نئی نسل کے ساتھ کئی مسئلے ہیں۔ ان میں ایک مسئلہ ان کی تعلیم بھی ہے۔ یہ تعلیم ہی تو ہے جو انہیں اچھے اور نئے آئیڈیل دیتی ہے چاہے وہ نوجوان بمبئی کے ہوں یا دہلی اور بنگلور کے۔ بھنڈی بازار کے ہوں یا ناگپاڑہ اور مدنپورہ کے۔ لیکن پڑھائی ختم کر کے حقیقی دنیا میں آتے ہی ان کے سارے آئیڈیل منٹوں میں چکناچور ہو جاتے ہیں۔ اور یہاں سے ہی ان کی مسلسل شکست کا آغاز ہوتا ہے۔ تسلسلِ شکست!
لال لال بڑی آنکھیں، چوڑی پیشانی پر گہری لکیریں، سنجیدہ چہرہ والا یہ نوجوان ہمارے کالج میں بھی کافی مقبول تھا، افسانہ وغیرہ بھی لکھتا کہتا کہ دل کی بھڑاس نکالنے کا یہ ہی طریقہ ہے۔
میں نے ایک بات اور نوٹ کی تھی۔ وہ ذرا ذرا سی بات کو فتح اور شکست کی ترازو میں تولتا۔ کہتا تھا مجھے شکست سے نفرت ہے۔ میرے اللہ کا کرم اور ماں کی دعائیں میرے ساتھ رہیں تو کوئی بھی مجھے شکست نہیں دے سکتا۔ اور تو اور اس نے پڑھائی اور امتحانات کو بھی جنگ کا نام دے رکھا تھا: دماغی جنگ! کہتا تھا کتابیں صرف پڑھو مت، حملہ کرو کتابوں پر، کیونکہ یہ ہی تمہاری فتح کے بیچ رکاوٹ ہیں۔ مجھے تو اس کی ان باتوں پر ہنسی آتی، شاید بچپن میں کسی شکست نے گہرا تاثر چھوڑا ہوگا۔
آج بھی مجھے یاد ہے جب وہ دسویں کلاس پاس کر کے صابو صدیق پالی ٹیکنک بمبئی میں سول انجینئرنگ کا ڈپلومہ کرنے داخل ہوا تھا، شاید اس وقت اس کے پاس فیس تک بھرنے کے پیسے نہ تھے۔ اس وقت اس کی عمر شاید 15/16 سال رہی ہوگی۔ اس کی مجبور اور آنسوؤں بھری آنکھیں شاید میں کبھی نہ بھلا سکوں گا۔ کافی بڑا خاندان ہونے ہونے کے باوجود بھی وہ اکیلا تھا، کمزور تھا۔ پھر پتا نہیں کیا ہوا، کہاں سے پیسے لایا؟ مگر اس نے کالج میں داخلہ لے لیا۔ کالج کی زندگی کی پہلی کلاس منہاز فرید نے 24/جولائی 1982 کو لی تھی۔ ہمیشہ کی طرح انہوں نے ہر طالب علم کو اپنا نام اور ہابی بتانے کے لیے کہا۔ طالب علم اپنا نام بتاتے اور پھر ساتھ میں ڈھیر ساری مصروفیات اور شوق۔ جب اس کی باری آئی تو نام بتا کر کہنے لگا:
"میری صرف ایک ہی ہابی ہے اور وہ ہے مستقبل کے بارے میں سوچنا"۔
پروفیسر منہاز فرید نے مذاقاً کہا:
"میاں، گاندھی جی نے مستقبل کے بارے میں نہ سوچا تو آپ کیا سوچیں گے؟"
پوری کلاس اس لطیفے پر ہنس پڑی، وہ بےچارہ خاموش نگاہوں سے سب کو دیکھتا رہا، مجھے اس پر بڑا ترس آیا۔
میں نے اس کے علاوہ اس کو اکثر شام کے وقت بھنڈی بازار پر واقع گلزار محمدی میں بمبئی کے افسانہ نگاروں کے ساتھ بیٹھے دیکھا ہے۔ ان دنوں انور خاں، الیاس شوقی، علی امام نقوی، ن۔ م۔ ناگ، سلام بن رزاق، آصف، آتما رام، شاہد لطیف، قاسم امام وہاں اکثر شام کو ملا کرتے۔ کبھی محفل یوسف بھائی کی چھوٹی سی کتابوں کی دکان کے پاس جم جاتی۔ چائے کے دور چلتے۔ چائے کے ہر گھونٹ کے ساتھ اسے محسوس ہوتا جیسے کہ وہ ان حساس اور صاف دل لوگوں کی زندگی میں ہوئے تجربوں کو پی رہا ہے۔ دنیا کی طرف دیکھنے کا زاویہ بدلنے لگا۔ جب یہ افسانہ نگار ہندوستان کے موجودہ حالات پر گفتگو کرتے تو اسے محسوس ہوتا گویا یہ لوگ ان آئینوں کی طرح ہیں جس میں ہندوستان کی اصل شکل دیکھی جا سکتی ہے۔ وہ اپنے آپ کو بھی ان ہی لوگوں کی عمر کا محسوس کرتا اور سوچتا کہ کل وہ بھی ان کی عمر کا ہوگا۔ یعنی وہ ان لوگوں کے ہی نقش قدم پر چل رہا ہے۔ خیر، دھیرے دھیرے اس کے مضامین انقلاب اور اردو ٹائمز وغیرہ میں چھپنے لگے۔
میں کافی متاثر ہوا ہوں اس نوجوان کی بلند ارادی سے کہ جو ٹھان لیا پھر بس کرنا ہی ہے۔ کیونکہ اسے شکست سے نفرت جو تھی۔ میں نے اکثر جاننا چاہا کہ کیا وجہ ہے اس فلاسفی کے پیچھے؟
کہنے لگا: "یار، میں کاما اسپتال (وی۔ٹی) میں خاموشی سے پیدا ہو کر چندن واڑی قبرستان میں خاموشی سے دفن ہونے والا نہیں ہوں۔ نہ تو کسی کو آپ کی پیدائش کی خوشی ہو اور نہ ہی مرنے کا غم۔ یہ بھی کوئی زندگی ہے؟ سب یہ ہی کرتے ہیں اور میں کسی کی نقل نہیں کروں گا۔ میں کوئی نیا کام کروں گا اور کسی شکست کو قبول نہیں کروں گا، چاہے کچھ بھی ہو!"
عجیب شخص تھا۔ ویسے بھی ہندوستان میں ہر روز ہونے والے واقعات ایک حساس نوجوان کی طبیعت کو عجیب بنانے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ پھر چاہے وہ بال ٹھاکرے کی شیواجی پارک کی تقریر ہو یا میرٹھ، بھاگلپور، دہلی اور بمبئی کے فساد، بھوپال گیس سانحہ ہو یا سردی سے مرنے والوں کی تفصیل۔
اسے یہ خبریں پڑھ کر کافی غصہ آتا۔ مجھے آج بھی یاد ہے، ناگپاڑہ پر واقع کاف ساگر کے باہر ہو رہی اس کے ساتھ کالج کے ساتھیوں کی گفتگو۔ اس کی بڑی لال آنکھیں مزید لال ہو جاتیں اور کہتا:
"یار بہت ہو چکا۔ ہماری یہ نسل دنیا کی نہایت تعلیم یافتہ اور معلومات یافتہ نسل ہے اور اب یہ بیوقوفیاں ناقابل برداشت ہیں اور ہم بھی اسی لیے بیوقوفی کا ایک حصہ ہیں۔ کیونکہ ہم بھی نقل کر رہے ہیں اپنے سے پہلے والوں کی۔ ہم سے پہلے نوجوان اسی طرح اسی ہوٹل کے باہر یہ ہی باتیں کرتے ہوں گے۔ تمام قسم کے آئیڈیل سے بھرپور منصوبے ان کے بھی ہوں گے۔ کہاں ہیں وہ نوجوان آج؟
ہیں۔ وہ آج بھی زندہ ہیں۔ مگر کالج سے باہر آتے ہی حقیقی زندگی کا سامنا کرتے ہی ساری باتیں خواب ہو جاتی ہیں۔ ادھر شادی، ادھر بچے ہوئے اور سب ختم! اور اب آپ کا کام بچوں کی پرورش کرنا اور ختم ہو جانا ہے اور میں یہ سب کرنے والا نہیں ہوں۔ یا تو اس ہندوستان کو اپنے آئیڈیل کے مطابق بدل دوں گا یا پھر ایسی جگہ چلا جاؤں گا جو میرے آئیڈیل کے مطابق ہو۔ تم لوگ میری بات یاد رکھنا۔"
5/اپریل 1989ء جورجیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، اٹلانٹا، یو۔ایس۔اے پر جمال کا خط ملا۔ وطن سے آئے ہوئے خط اس کے لیے کیا اہمیت رکھتے ہیں، یہ صرف وہ ہی جانتا ہے۔ یونیورسٹی پوسٹ آفس کے باہر اسٹوڈنٹ سنٹر کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر وہ خط پڑھنے لگا۔
"یار! زندگی نے عجیب شکل لے لی ہے۔ گذشتہ 6 سال میں ہر مسئلے کو ایک ساتھ حل کرنے کی عادت ہو گئی تھی، لگتا ہی نہ تھا کہ کبھی ان مسائل کو اکیلے ہی حل کرنا ہوگا۔ خیر، زندگی شاید ان ہی حرکتوں کا نام ہے۔
فیروز کی سائٹ ملاڈ میں ہے۔ میں، عزیز اور فیضان رضوی بلڈرس کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ جمیل سے تین مہینوں سے ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ شکیل مالیگاؤں چلا گیا ہے، قدوس ریاض میں ہے۔ رئیس چھوٹے کنٹریکٹ لے رہا ہے اور ساتھ میں صابو صدیق میں پڑھاتا بھی ہے۔"
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں