فیس بک : آگ بھی ہے گلزار بھی - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2021/09/23

فیس بک : آگ بھی ہے گلزار بھی

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
23/ستمبر/2021
*****


کل کی ہی بات ہے۔
ادب دنیا کے دو معروف اشخاص (ایک بزرگ اور ایک نوجوان) نے کچھ ایسا لکھا ہے کہ لوگ اس پر مختلف و متنوع ردعمل دے رہے ہیں، اظہار خیال کر رہے ہیں، مکالمہ/مذاکرہ میں مشغول ہو گئے ہیں۔


خالد جاوید ہوں یا کامران غنی صبا۔۔۔ دونوں نے اپنی اپنی حد تک حقیقت بیانی کی ہے۔۔۔
مگر اظہارِ حقیقت کی بھی کچھ حدود ہوتی ہیں۔۔۔ اور جیسے ہی لائن کراس کی جاتی ہے، اعتدال رخصت ہوتا ہے اور فکر و نظر غیرشعوری طور پر انتہا پسندی کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے۔


اردو صحافت کے متعلق کامران غنی کے مشاہدات اور تجربات صحیح ہو سکتے ہیں اور وہ ان کے بیان میں حق بجانب بھی۔ لیکن اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر کوئی کائیناتی کلیہ قائم نہیں کیا جا سکتا اور نہ اس قسم کا مشورہ دینا مناسب کہلائے گا کہ:
"نئی نسل کو میں قطعاً یہ مشورہ نہیں دوں گا کہ وہ اردو صحافت کا بطور کیریئر انتخاب کریں"
یہ تو وہی بات ہوگی کہ ۔۔۔ چند نوجوان لَو میرج یا ارینجڈ میرج کریں اور بدقسمتی سے ازدواجی زندگی ناکام ہو کر طلاق پر منتج ہو ۔۔۔ تو کیا ان نوجوانوں کا یہ نعرہ برحق کہلائے گا کہ:
"نوجوان لَو / ارینجڈ میریج بالکل نہ کریں!"


زندگی آگ بھی ہے اور گلزار بھی۔ معاشرہ مثبت و منفی دونوں قدروں کے ساتھ چل رہا ہے۔ ہر فرد کی زندگی کے تجربات، طرزِ معاشرت، فکر و نظر مختلف ہوتے ہیں۔ فرد ان کے اظہار میں جہاں آزاد ہے وہیں معاشرتی/اخلاقی/مذہبی اصول و ضوابط کے دائرے میں قید بھی۔ لہذا کسی ایک رخ پر گھوڑے دوڑا دینا کہ سب کچھ میٹھا ہی میٹھا ہے یا سب کچھ کڑوا ہی کڑوا ۔۔۔ ظاہر ہے کہ راہِ اعتدال نہیں کہلائی جا سکتی۔


پروفیسر خالد جاوید کا متن اس موضوع پر براہ راست تو نہیں ہے بلکہ انہوں نے رسالہ "اثبات" کے تازہ شمارے پر اپنے سیرحاصل تبصرہ میں، کچھ ضمنی باتیں بطور ابتدائی پیراگراف، معذرت کے ساتھ بیان کی ہیں جو بظاہر فیس بک یا سوشل نیٹ ورکنگ تعلقات کا رد محسوس ہوتی ہیں۔ اور پھر انہوں نے کوئی فیصلہ/فتویٰ بھی نہیں دیا ہے کہ خبردار سب دور رہیں اس چیز سے۔
مگر ظاہر ہے علمی دنیا کے کسی بڑے قلم سے سرزد ہونے والے اقوال کو مذہبی مقلدین کی طرح آمنا و صدقنا تو نہیں کہا جا سکتا۔ یہی سبب ہے کہ جب زین شمسی صاحب یا جاوید نہال حشمی ان اقوال پر اعتراض کرتے ہیں تو دونوں کے دلائل بجا بھی لگتے ہیں اور معقول بھی۔
فیس بک صرف بھری پری ایسی کوئی سڑک نہیں جہاں لوگوں کا اچھا برا ٹکراؤ ہوتا ہو نہ ایسا کوئی واحد سلولائیڈ منظرنامہ ہے جہاں لوگ بیک وقت شکار اور شکاری دونوں کا پارٹ ادا کرتے ہوں۔
یقیناً فیس بک کے کچھ مثبت فوائد بھی ہیں جیسے بقول زین شمسی: ترسیل کا لامحدود وسیلہ اور فوری ردعمل کا آلہ۔ اور بقول جاوید نہال حشمی: ایک مصنف چند لمحوں میں دنیا کے ان حصوں میں پہنچ جاتا ہے جہاں پرنٹ میڈیا کے ذریعہ برسوں بعد بھی پہنچنا ممکن نہ ہوتا۔ یا پھر بقول شخصے ۔۔۔ علمی، ادبی، سماجی، معاشی، سیاسی، مذہبی و دیگر لاتعداد موضوعات پر دوست احباب سے تبادلۂ خیال، عالمی سطح پر ہمخیال یا ہم مزاج افراد سے روابط یا ان سے استفادہ، تخلیق یا خیال کی آمد پر دوست احباب سے فوری اشتراک کا آسان ترین ذریعہ ہے فیس بک۔


کسی کے تجربات مختلف ہو سکتے ہیں اور فرد ان کے اظہار میں آزاد بھی ہے۔۔۔ مگر بات وہی ہے کہ آپ کے اظہار خیال سے معاشرے کو وارننگ کم از کم اس انداز میں ملے کہ لوگوں میں کسی پلیٹ فارم سے متعلق یکسر بددلی کا یا استعمال کنندگان کو اپنی عزتِ نفس کی لاچارگی کا احساس تو نہ ہو۔
اسی ضمن میں ڈاکٹر ارشد عبدالحمید کیا ہی خوب کہتے ہیں کہ:
"اگر کہیں اردو کا کام ہو رہا ہے، خواہ وہ کم تر ہی کیوں نہ ہو، تو وہاں ادبی معیار کو بڑھانے اور رہنمائی کرنے کے لیے ایک کامیاب ادیب کو بھی شرکت کرنی چاہیے۔"


The positive effects of social media or facebook.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں