© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
21/ستمبر/2021
*****
"ایک، دو، تین، چار ۔۔۔ پداموڑو، پدنالُوگو، پدی-ہینو ۔۔۔ ٹھرٹی ایٹ، تھرٹی نائن، فورٹی ۔۔۔"
#مرزا بائک کی پچھلی نشست سے اترے، ایک طویل انگڑائی توڑی، پیچھے پلٹ کر پان کی پچکاری اچھالی اور بولے:
"گڑھے نہیں گڑھوں کا چہلم ہے بولو"
مرزا کو دراصل لفٹ چاہیے تھی تالاب کٹہ سے چھتہ بازار تک۔ مگر جیسے ہی بائک اسٹارٹ ہوئی، سڑک کے گڑھوں کو گننا شروع کر دیا۔
ہم نے کہا: مرزا پیارے، تم تین چار کلومیٹر پر ایسا ہَول کھا رہے ہو تو ہمارا کیا ہوتا ہوگا جو روز بارہ پندرہ کلومیٹر جانے اور آنے میں ذہن و بدن کی توانائی خرچ کرتے ہیں۔
مرزا جھلا گئے، بولے:
"ارے تو پاشا، اپنے علاقے کے 'کائدِ موترم' سے شکایت کیوں نہیں کرتے کہ جماعت سے وابستگی اگر آخرت کمانے کے لیے ہے تو اسی ثواب کی خاطر ہی یہ گڑھے بھرتے کیوں نہیں، سڑکیں کیوں نہیں درست کرواتے، ٹریفک مسائل کا حل کیوں نہیں نکالتے۔۔۔"
مرزا کے شانے پر تھپکی دے کر انہیں کول کرایا: صبح صبح سیاسی مسائل نکو چھیڑو یارو!
مرزا تھوڑا شانت ہو کر بولے:
ویسے ایک بات ہے، کوئی پیچھے بیٹھے تو تم چلاتے بڑی نفاست نزاکت سے ہو، یوں جیسے یہ ڈر ہو کہ پیچھے اکلوتی منکوحہ بیٹھی ہے!
"ہاں! ایسی سوچ کے ساتھ ڈبل سواری بائک چلانے پر ٹریفک حادثے کے امکانات تقریباً صفر ہو جاتے ہیں"۔ ہم نے مدبرانہ دانشوری جھاڑی۔
ایک قہقہہ کے ساتھ مرزا نے ہماری پیٹھ ٹھونکی، پھر کھچاک سے چھتہ بازار کمان پر لگے ایک بینر کی تصویر کھینچی اور بلیوٹوتھ سے غریب کے موبائل پر ٹرانسفر کر ڈالی۔
پوچھا: یہ کیا؟
بولے: "میرے کو خوب معلوم ہے تم دفتر پہنچتے ہی یہ ڈائیلاگ بازی سوشل میڈیا پر شئر کردو گے۔ اس لیے پوسٹ کے ساتھ لگائی جانے والی تصویر ایڈوانس میں تم کو دے رؤں"
"مگر اس تصویر کا تعلق تحریر سے بنتا کیسے ہے؟" ہم نے حیرت سے تصویر کو گھورا۔
"یہ آئٹم سانگ ہے پیارے۔ اس کو دیکھ کر ہر غیرشادی شدہ نوجوان نہ صرف نکاحی بندھن میں بندھنے کی طرف راغب ہوگا بلکہ تمہاری پوسٹ بھی برضا و رغبت پوری پڑھ ڈالے گا۔۔۔" مرزا نے آنکھ میچ کر وضاحت کی۔
ہم نے عرض کیا: "اور شادی شدہ۔۔۔؟"
"وہ ماضی کی سنہری یادوں کی تلاش میں پوری پوسٹ پڑھنے پر تل جائے گا"
یہ کہہ کر مرزا نے اپنی مطلوبہ دکان کا دروازہ دھڑاکے سے کھولا اور بآواز بلند گنگناتے ہوئے اندر گھس گئے:
رات کلی اک خواب میں آئی ۔۔۔ اور گلے کا ہار ہوئی!!
Current affairs, the conditions of Roads in old city, a satire.
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں