© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
11/جون/2021
پچھلے دنوں فیس بک کے چند احباب کی پوسٹس میں "چار ہزار مشاعروں" سے متعلق ایک خبر اور چند تصاویر جگمگاتی رہیں۔ اردو کے حوالے سے کچھ کے نزدیک نادر واقعہ تھا اور کچھ ہم جیسے تند مزاج ناقدین کے نزدیک "چار ہزار میں سے چالیس اشعار بمشکل معیاری" والا معاملہ تھا۔
وہ تو بھلا ہو عزیز دوست شمس الرحمن علوی کا، جن کے توجہ دلانے سے احساس ہوا کہ بچارے پڑھنے والوں کو بنیادی معلومات کی جانکاری کوئی نہیں دیتا۔ بس گلپوشی، کچھ اخباری رپورٹ کے تراشے اور ممدوح کے ساتھ چپک کر کھنچوائی گئی تصاویر بڑے بزرگ بچے نوجوان تزک و احتشام سے شئر کرکے واہ واہی بٹور لیتے ہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم بھی اسی کمینہ ٹائپ معاشرے میں جی رہے بس رہے ہیں۔ ایک عدد تصویر ساتھ کھنچوانے کے لالچ میں مٹھائی کا ڈبہ لے کر دفتر سے گھر واپسی کے دوران چچا جان یوسف روش کے دولت کدے پر پہنچ گئے۔ ملاقات پر چھوٹتے ہی چچا جان نے اس غریب کا وہ فیس بکی کمنٹ بتایا، جو انہوں نے اپنی ڈائری میں درج کر رکھا تھا اور جو کسی دل جلے نے انہیں فون پر غالباً سنا بھی دیا تھا کہ لیجیے ملاحظہ فرمائیے اپنے حقیقی بھتیجے کے تاثرات۔ پھر چچا جان نے ہنستے ہوئے کہا:
میاں، مجھے معلوم ہے تمہاری فطرت، بھائی جان بھی اپنے دور میں ایسے ہی تھے کچھ۔ (بھائی جان سے مراد احقر کے والد مرحوم رؤف خلش)۔
جامعہ عثمانیہ سے کیمیکل انجینئرنگ میں بی۔ٹیک کے بعد ایم۔ٹیک کی ڈگری حاصل کرنے والے ہمارے چچاجان تو خیر سے کثیرالمطالعہ، وسیع الذہن، وسیع الظرف شخصیت ہیں۔ مگر ہم بھی ذرا لوگوں کو بتا دیں کہ۔۔۔۔
حضرات! ہم اس دور کی پیداوار ہیں جب کسی بچہ کی تربیت میں صرف والدین نہیں بلکہ اسکول کے اساتذہ سے لے کر کام والی موسی اماں، مالن بی کے علاوہ چچا پھوپھی، ماموں خالہ وغیرہ حسب توفیق و استطاعت اپنا فریضہ نبھایا کرتے تھے۔ کھلانا، دھلانا، نہلانا پہنانا سے لے کر کہانی سنانا، نصیحتیں کرنا، ٹوکنا مارنا سب ان کے لیے جائز تھا۔ یہی چچا جان جن کی گود میں پل کر ہم بڑے ہوئے، آج بھی کسی خاندانی تقریب میں ملیں تو محبت بھرے انداز میں دونوں گالوں پر چٹکیاں لیتے ہوئے کہتے: کدھر ہے تو، بھول گیا چچا کو؟ اور ہماری جوان اولاد چچا بھتیجے کو آنکھیں پھاڑ کر بس دیکھتی رہ جاتی ہے۔
بہرحال ہم نے اپنے کمنٹ کی صفائی دینے کے بجائے ڈھٹائی سے مٹھائی کے ڈبے سے ایک دودھ پیڑا نکالا، بدبخت رال کو ٹپکنے سے بچانے پیڑے کو منہ میں ڈالا اور شانِ بےنیازی سے عرض کیا: آپ کو تو معلوم اِچ ہے میری عادت۔
چچا جان نے مسکراتے ہوئے سر پر چپت لگائی اور فرمایا: اچھا سنو، اسی پر کل ہی ایک قطعہ ہوا۔
زباں نصیب بشر کو ہے کوئی کچھ بھی کہے
نصیب اپنا ہے جو شاعری ملی ہم کو
نہ لگ سکے گی کسی پر بیاں کی پابندی
خدا کا شکر روش بےکلی ملی ہم کو
یادش بخیر۔
ہم کوئی آٹھویں نویں جماعت میں تھے اور والد صاحب اپنی پہلی چھٹی پر سعودی عرب سے حیدرآباد آئے تھے۔ چچا جان ملاقات کے لیے حاضر ہوئے اور مودب انداز میں سر جھکا کر عرض کیا:
بھائی جان! آپ کی تتبع میں میں نے بھی شاعری شروع کر دی ہے اور آپ کے تخلص کے بروزن روشؔ کو اپنے لیے بطور تخلص منتخب کیا ہے۔
والد صاحب مسکرائے اور پہلی رائے یہی دی کہ تمام کلاسیکی شعرا کے ساتھ عصرحاضر کے اہم شعرا کے کلام کا لازمی مطالعہ کرو۔
پھر اس کے بعد کی تاریخ آج بھی نگاہوں میں تازہ ہے کہ ۔۔۔ ہر سال والد صاحب کی چھٹی کے دوران چچا جان روز صبح اور شام ایک ایک غزل لیے بغرض اصلاح حاضر ہو جاتے۔ یہ سلسلہ تواتر سے والد صاحب کی وفات (جنوری/2020ء) تک جاری رہا۔ خط دے کر چلے جاتے اور بعد میں کسی بچے سے منگوا لیتے۔
چچا جان کی شاعری کی شروعات یوں تو اگست 1981ء میں ہوئی تھی مگر اپنا پہلا مشاعرہ انہوں نے فروری/1994ء میں پڑھا یعنی تقریباً بارہ سال بعد۔
مشاعروں کی تفصیل کو ڈائری میں درج کرنے والی چچا جان کی عادت سے ہم تو اپنے لڑکپن سے ہی واقف تھے، مگر اس کی تفصیلی جانکاری کل کی ملاقات میں خود چچا جان نے یوں دی کہ ۔۔۔۔
مشاعروں کی تفصیل کو ریکارڈ کرنے کی دیوانگی کے پیچھے ایک یادگار تحریک یہ ہے کہ میرے شفیق استاد مولوی کمال الدین (انہی مولوی صاحب مرحوم کے ایک واقعہ کا ذکر ناچیز نے بھی اپنے ایک مضمون میں کچھ سال قبل تحریر کیا تھا) نے بچپن میں مجھے یہ نصیحت کی تھی کہ روزانہ پنج وقتہ نمازوں کا حساب ایک بڑے رجسٹر میں پابندی سے لکھا کرو۔ یعنی نماز جماعت سے ادا ہو تو کالم میں "ج" لکھو، اگر وقت پر پڑھو تو ٹِک کا نشان لگاؤ، اگر قضا ہو جائے تو "ق" لکھو، مگر یاد رہے کہ روزانہ کوئی بھی نماز ترک نہ ہونے پائے۔ اس طرح بچپن سے معمولاً پنج وقتہ نمازوں کا ریکارڈ لکھتا رہا۔ پھر جب مشاعروں کا سلسلہ شروع ہوا تو مشاعروں کا ذکر بھی مختلف ڈائریوں میں یکے بعد دیگرے ریکارڈ ہونے لگا، اس طرح تاحال سات ڈائریوں میں یہ ریکارڈ محفوظ ہے۔ پہلے صرف تاریخ، ادارہ، صدر اور طرحی یا غیرطرحی مصرع درج کرنے کا اہتمام کیا، البتہ اب چند برسوں سے مشاعرہ کی دیگر تفصیلات بھی ساتھ ساتھ تحریر کرنے لگا ہوں۔
جب ہم نے مشاعروں میں دئے جانے والے "لفافہ" یعنی ہدیہ یا سواری خرچ کے بارے میں دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ تین روپے (مارچ-1996ء) سے لے کر تقریباً دو ہزار روپے سے تک انہیں نوازا گیا ہے۔ (اب اللہ جانے وہ کس قسم کے شعرا کا دھانسو طبقہ ہے جو فی مشاعرہ بیس تیس ہزار سے لاکھ ڈیڑھ لاکھ کے "ہدیۂ تبرک" سے شرابور کیا جاتا ہے؟)
پھر مقامِ مشاعرہ اور تعدادِ سامعین پر جب بات ہوئی تو بتایا کہ خود ان کے چھ بائی آٹھ فیٹ والے مختصر سے دیوان خانے میں تک چھ افراد پر مشتمل تین مشاعرے بپا ہو چکے ہیں! صرف چھ افراد؟ تو آگے ایک تاریخی حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: حیدرآباد کی مشہور فلاں ادبی تنظیم (نام مت پوچھیے!!) کے قیام کی گولڈن جوبلی سالگرہ پر جب مشاعرہ کا اعلان ہوا تو لاک ڈاؤن کے مسائل تھے مگر چچا جان نے کہا کہ وہ یقیناً حاضر رہیں گے۔ تو مشاعرہ کے وقت ہال میں صرف تین نفوس موجود تھے، ایک ہمارے چچا شاعر، دوسرے صدرِ مشاعرہ (جو ادارہ کے سرپرست اعلیٰ بھی تھے) اور ایک سامع!
شاعری کے برعکس چچا جان کی نثر نہایت عمدہ اور متاثرکن رہی ہے۔ اسی لیے کئی بار والد صاحب نے دبے الفاظ میں انہیں نثر کی طرف زیادہ توجہ دینے کی ترغیب دلائی تھی۔ ویسے ان کی 18 عدد جتنی بھی چھوٹی بڑی کتابیں شائع ہو چکی ہیں، ان میں سے سات کتابیں نثری مضامین پر مبنی ہیں جن میں سے ایک کتاب (تقریباً دو سو صفحات) جو اہم، دلچسپ اور قابل مطالعہ ہے، وہ ہے:
ادراک و احساس (انٹرویو، ادبی تذکرے، خاکے و تبصرے - سن اشاعت: جولائی-2006ء)
اس کتاب میں شامل دو مضامین والد صاحب اور پھوپھا مرحوم غیاث متین کی شاعری پر تحریر کیے گئے ہیں (ان دونوں مضامین کو جلد ہی تعمیرنیوز پر شائع کیا جائے گا)
1: رؤف خلش کا شعری رویہ
2: پروفیسر غیاث متین : علامتی اظہار کے شاعر
یہاں اس بات کا تذکرہ بھی شاید بےجا نہ ہو کہ چچا جان کے خاص و عزیز دوست ڈاکٹر عباس متقی نے ان کے فن اور شخصیت پر ایک مختصر کتابچہ بعنوان "یوسف روش کی چلبلی پرچھائیاں" شائع کیا ہے (سن اشاعت: 2019ء) جس میں چھ (6) عدد فکاہیہ مضامین شامل ہیں۔
ڈاکٹر صاحب سے ہمارا تعلق بھی کچھ یوں بنتا ہے کہ ایک تو یہ ہماری بیگم کی حالیہ پوسٹ گریجویشن تعلیم کے دوران فارسی کے استاد تھے اور دوسرے ماضی میں منعقد شدہ کل ہند طنز و مزاح ادبی مقابلے (زیر اہتمام سرور ڈنڈا میموریل سوسائٹی حیدرآباد: فروری-1988ء) کے تحریری مقابلہ میں ناچیز نے انہیں دوسرے نمبر پر دھکیل کر خود انعامِ اول حاصل کیا تھا۔
چچا جان کی شاعری ایک طرف ۔۔۔ کرکٹ سے ان کی جنونی دلچسپی کا ذکر کیے بغیر شاید تعارف مکمل نہ ہو۔ باؤلنگ میں اگر عمران خان کے شیدائی تھے تو میاں داد، ظہیر عباس اور رمیز راجہ کو بلےبازی کے راجہ مہاراجہ مانتے رہے اور وسیم اکرم کے لیے تو کبھی کہہ دیا تھا: جمعہ جمعہ آٹھ دن کا لونڈا ہے، عمران کی تیکنیک کو سمجھنے اسے برسوں لگیں گے۔
اس موضوع پر ڈاکٹر متقی نے متذکرہ کتابچہ کے ایک مضمون میں بڑی دلچسپ خاکہ نویسی کی ہے، لکھتے ہیں ۔۔۔۔
ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ روش بھائی کرکٹ کے اس درجہ والہ و شیدا واقع ہوئے ہیں کہ وہ کرکٹ پر اپنے تاریخی مشاعرے کو قربان کر دیں گے۔ صاف صاف کہہ دیا کہ روش اپنے تین ہزار تین سو تینتیس (3,333) ویں مشاعرے کو خیرباد کہہ سکتا ہے لیکن کرکٹ کے آخری اور فائنل میچ سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ ان کی یہ قربانی اس بات کی غمازی کر رہی تھی کہ وہ شعر و سخن سے زیادہ گیند بلے سے پیار کرتے ہیں۔ ہم نے کہا: روش بھائی! یہ مشاعرہ آپ کے لیے، آپ کی محبت میں اور آپ کے تین ہزار تین سو تینتیس ویں مشاعروں کی تکمیل پر رکھا گیا ہے۔ نوشہ ہی حاضر نہ ہو تو ہم سامعین اور حاضرین کیا آرام سے بیٹھ کر مچھلی پکڑیں گے؟ اور پھر پکڑیں گے کس کو، ڈوغ بھی گرمی کے سبب کروٹیں لینے کے موقف میں نہیں۔ کہنے لگے: یہ میری مجبوری ہے۔ ان کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اگر آج خوبئ تقدیر سے روش بھائی کا عقدِ دوم بھی مقرر ہو تو وہ آج کی رات کھیل کھیلنے کے بجائے کھیل دیکھنے کو ترجیح دیں گے۔ خود چوے اور چھکے لگانے کے بجائے دوسروں کو چوے اور چھکے لگاتا دیکھیں گے اور حسبِ عادت خوش ہو ہو کر ہاتھ ملائیں گے اور دونوں ہاتھوں سے تالیاں بجائیں گے۔ ہاتھ میں مہیندر سنگھ کے بال ہوگا اور روش بھائی مسکرائیں گے۔
آخر میں ۔۔۔ بحیثیت قلمکار اور ناقد کے، ہم تو یہی کہیں گے کہ چچا جان اب بس بھی کیجیے۔۔۔ بہت ہو گیا۔
اور بحیثیت ایک معصوم لاڈلے بھتیجے کے، یہی دعا ہے اللہ ان کی عمر دراز کرے، ان کی علمی و ادبی سرپرستی ہمارے سر پر برقرار رکھے اور انہیں دس ہزاری مشاعرے کے منصبِ جلیلہ پر بخوبی فائز فرمائے۔ آمین۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں