عارف الدین قریشی - پیدا کہاں ہیں ایسے وسیع الذہن لوگ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2021/04/24

عارف الدین قریشی - پیدا کہاں ہیں ایسے وسیع الذہن لوگ

از: مکرم نیاز (حیدرآباد، انڈیا)۔

"مسجد میں سادگی سے نکاح مستحب تو ہے ہی، پھر تقاریب کی مروجہ خرابیوں سے بچاؤ کے علاوہ مسجد، ملت کا ایک ایکٹیو کمیونٹی سنٹر بھی بن جاتی ہے۔۔۔"
سفید و سنہرے رنگ کی بےداغ شیروانی میں ملبوس، سرخ و سپید چہرے، مختصر قد کی ایک باوقار شخصیت کی پاٹ دار آواز میں بیان جاری تھا اور میں نے پاس بیٹھے اپنے عزیزترین دوست کو کہنی مار کر سرگوشی کی: "ابے، لا لیا ناں اپنے جماعتی مولانا کو؟ کون ہیں یہ؟"
جماعت اسلامی کے یوتھ ونگ سے وابستہ میرے اس کمینے دوست نے اتنی ہی زور سے جوابی کہنی ماری اور کان میں بدبدایا: "اماں یار میں بھی نہیں جانتا، کون ہیں کی؟"
پھر دستخط کا مرحلہ آیا تو مولانا نے دلہن کی طرف سے بطور گواہ اپنے دستخط کیے اور یوں سن 2000ء کے آخری ہفتہ میں اپنے نکاح کے موقع پر مجھے پتا چلا کہ ستر/بہتر سالہ مولانا دراصل زوجہ محترمہ کے نانا حضور ہیں۔

پھر دوسرا تصادم پہلی جمعگی پر ان کے دولت کدے کی دعوت طعام پر ہوا۔ بعد تناول طعام آپ نے استفسار کیا:
"میں نے سنا کہ آپ رامپور کے ادارہ الحسنات کے رسائل میں لکھتے رہے ہیں؟"
ہم تو نئے نئے نوشہ تھے، لمبی کہانی کیا سناتے بس "جی" کہہ کر خاموش ہو گئے۔ مگر پھر نانا ابا کی گفتگو جو شروع ہوئی تو۔۔۔ برصغیر کی تقسیم، ملت اسلامیہ کی شیرازہ بندی، سید مودودی کی تحریک، اختلافات، تنازعات اور جماعت کے دونوں ملکوں کے دھڑوں کا مختلف تعین کار و ترجیحات وغیرہ وغیرہ سے لے کر عصر حاضر کے ملی و سماجی مسائل کا دلچسپ و پرفکر تجزیہ و تبصرہ ۔۔۔ بیچ بیچ میں اظہار خیال کے لیے غریب کا منہ کھلتا مگر ناناابا حضور کی پرجوش خطابت کے زور کو دیکھ کر چپ چاپ بند ہو جاتا۔ پھر آپ نے اتوار کی صبح درس قرآن کی محفل میں شرکت کی دعوت دی۔ سسرالی معاملہ تھا، ناں تو کر نہیں سکتے۔

اکبرالدین اویسی کے اسمبلی حلقہ چندرائن گٹہ کے اس محلہ نصیب نگر میں بیسویں صدی کی آخری دہائی کے اواخر میں، اس وقت دور دور تک کوئی مسجد قائم نہیں تھی۔ پھر نانا ابا اور چند دیگر مخیر اہلیان محلہ کے تعاون سے "مسجد ذوالجلال" کا قیام عمل میں آیا۔ جہاں ہر اتوار کی صبح جماعت اسلامی کے مقامی حلقہ کی طرف سے درس قرآن کا نظم ہوتا اور ناناابا حضور خوش الحانی سے تلاوت کلام پاک کے بعد تفہیم القرآن کے ذریعے مختصر درس دیتے اور کبھی نوجوانوں اور بچوں کی تجوید کی کلاسز بھی لیتے۔
شروعات کے چند ماہ تو ان کی علمی و دینی شخصیت کا رعب و دبدبہ قائم رہا، پھر اس کے بعد ہم اپنی سسرال میں ذرا پرانے ہوئے تو ہماری زبان کی روایتی لن ترانی بھی لوٹ آئی۔ بعد ازاں ہر ملاقات پر ہند و پاک ٹائپ اختلافی موضوعات کی جنگ شروع ہوتی تو اس کا نتیجہ غیر مختتم ہی رہتا۔ ہماری بیگم اکثر فرماتیں: وہ ایک عجیب مائنس (minus) اور آپ ایک الٹرا مائنس۔ اس پر ہمیشہ ہمارا جواب ہوتا: ریاضی کے اصول کے بموجب
minus into minus is equal to plus
بہرحال گفتگو کی نشستیں زیادہ نہ رہیں کہ پھر کچھ عرصہ بعد ہم دوبارہ سعودی عرب پرواز کر گئے۔ مگر جب بھی چھٹی پر آمد ہوتی تو ایک دو ملاقاتوں کا شرف حاصل ہوتا، عید کے دن تو بالخصوص۔ اور ہماری بیگم بائک پر پیچھے بیٹھیں کمر پر چٹکیاں کاٹ کاٹ کر ایڈوانس میں وارننگ پہ وارننگ دئے جاتیں کہ خبردار! دوران ملاقات کوئی فالتو بحث نہ چھیڑ بیٹھنا۔ مگر کون ستنا ہے فغان درویش۔

ایک بار غضب یہ ہوا کہ امام ابوحنیفہؒ کی شان میں کچھ تیزرو فقرہ ناچیز کی زبان سے نکل گیا۔ بس نانا ابا قبلہ بھڑک ہی گئے۔ پہلے تو حسب روایت 'غیرمقلدین' کی زبان درازیوں کی کلاس لی پھر اپنے مخصوص لہجے میں آہا آہا کے تکیہ کلام کے ساتھ امام عالی مقام کی شان، مرتبہ، حکمت و علمیت کا جو بیان فرمایا تو رات کے دس سے دو بج گئے۔ دوسرے دن اپنی ذاتی لائبریری کی دو کتابیں بغرض مطالعہ عنایت کیں۔ یعنی شیخ ابوزہرہ مصری کی مشہور سوانحی کتاب "حیاتِ ابوحنیفہ" کا اردو ترجمہ (منجانب: غلام احمد حریری) اور تذکرہ امام اعظم (جمیل احمد شرقپوری)۔ افسوس کہ راقم نے غلطی یہ کی کہ چھٹی سے سعودی واپس جاتے ہوئے کتب انہیں واپس کر دیں، ورنہ دونوں آج میرے کتب خانے کی زینت ہوتیں۔

پھر مستقلاً انڈیا واپسی اور ریاستی سرکاری ملازمت سے رجوع بکار ہونے کے بعد سے تو گفتگو کے موضوعات یکسر تبدیل ہو گئے۔ نانا ابا چونکہ خود بھی ریاستی حکومت کے شعبہ کمرشیل ٹیکس میں برسرکار رہے اور بحیثیت اسسٹنٹ کمرشیل ٹیکس آفیسر سبکدوش ہوئے تھے۔ لہذا آپ نے سرکاری قوانین، اصول و ضوابط، طریقہ کار کے ضمن میں میری کافی رہنمائی کی۔ آپ کی ایک ہدایت تو ہمیشہ یاد رہی، فرمایا: "اپنے محکمے میں آپ کی شناخت آپ کے نام سے بالکل نہیں ہونی چاہیے، بلکہ کوشش کیجیے کہ آپ کا کام، آپ کا کردار، مزاج، رویہ اور اخلاص آپ کی یعنی ایک مسلمان کی مثبت پہچان بنے"۔

گذشتہ سال جب معلوم ہوا کہ علالت کے باعث نانا ابا قبلہ بستر پر صاحب فراش ہیں اور اپنے ذاتی کتب خانہ کی بیشتر کتب فلاں فلاں مکتبہ کو ہدیہ کر رہے ہیں تو ہم دوڑے دوڑے گئے۔ اس کا حال شاید گذشتہ سال کی کسی پوسٹ میں "فرہنگ آصفیہ" کے حوالے سے تحریر کیا تھا (فیس بک کمبخت نے، اسی پوسٹ میں بلاگ لنک دینے پر پوسٹ ہٹا دی ہے، جو اب کہیں نظر نہیں آتی)۔ مختلف رسائل جیسے ترجمان القرآن، فاران، تجلی، حریم، دعوت، الحسنات اور دیگر کے کئی ضخیم خاص نمبر غائب ہو چکے تھے۔ پھر بھی کافی کچھ کتب و رسائل حاصل ہوئیں مگر وہ چند کتب جو آپ نے مجھے دینے بطور خاص محفوظ رکھی تھیں، وہ تھیں: رسول اکرم کی حکمت انقلاب (اسعد گیلانی)، ایک شخص ایک کارواں (مجیب الرحمن شامی)، ترجیحات دین (یوسف قرضاوی)، سلطنت خداداد (محمود خاں)، شریعت یا جہالت (پالن حقانی)، تصوف اور اہل تصوف (عروج قادری)، مسجد سے میخانے تک، تاریخ دعوت و جہاد، تفسیروں میں اسرائیلی روایات، علامہ اقبال اور قرون اولیٰ کے مسلمان مجاہدین۔

پرسوں جمعرات (22/اپریل/2021) کو دفتر سے نکلتے نکلتے چھوٹے بیٹے کا مسیج آیا کہ: ابو! آپ افطار پر سیدھے مسجد ذوالجلال آ جائیں تو دل اندیشوں سے بھر گیا۔
مسجد ذوالجلال میں نماز جنازہ کے بعد اجالے شاہ قبرستان کی ایک لحد میں نانا ابا قبلہ محمد عارف الدین قریشی کو اتارتے ہوئے نجانے کیسے آنکھ کے گوشوں سے دو آنسو ٹپک پڑے اور کانوں میں ایک شعر خود انہی کے مخصوص لہجے میں جیسے گونج اٹھا:
جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا

آپ عموماً کہتے تھے، افسوس کہ زندگی ایک تو کم ملی ہے، دوسرے ملازمت کی مصروفیت نے تبلیغ کے متعدد موثر مواقع سے دور کر دیا، اقامتِ دین کا حق ادا ہی نہ کر سکا۔ آپ نے موت کا ذکر کبھی نہیں کیا۔ قریب سے قریب تر عزیز کی وفات پر بس وہی آیت دہرائی: کل نفس ذائقۃ الموت۔
دعا ہے کہ اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور میدان حشر میں انہیں ان کی محبوب شخصیات علامہ مودودیؒ، امام حسن البناؒ اور خرم مرادؒ کے پہلو میں جگہ دے۔ آپ کی خوش الحانی اور پراثر بیان کے دوران آواز کے زیر و بم کا ایک زمانہ تو قائل رہا مگر بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہیں کہ آپ اتنے ہی خوش خط بھی تھے۔ ان کی ڈائری کا ایک ورق بطور ثبوت پیش ہے۔

علمی ادبی دینی شخصیات سے تبادلہ خیال اور مکالمہ آدمی کے خیال و فکر کی کشادگی، رواداری اور وسعت ظرفی کا سبب بنتا ہے۔ افسوس کہ پچھلے سال ادبی گفتگو کے حوالے سے والد ماجد کو کھویا اور امسال نانا ابا علمی و دینی تبادلہ خیال سے یوں محروم کر گئے کہ اب۔۔۔۔ ع
پیدا کہاں ہیں ایسے 'وسیع الذہن' لوگ

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں