دہی بڑے - ہندوستانی اور پاکستانی ٹیلی ویژن ڈراما سیرئیلز - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2021/04/27

دہی بڑے - ہندوستانی اور پاکستانی ٹیلی ویژن ڈراما سیرئیلز


© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
27/اپریل/2021

تانا بانا، چپکے چپکے، خواب نگر کی شہزادی، اولاد، ڈنک، قرار، رقصِ بسمل، فتور، قیامت، نند
۔۔۔ یعنی کہ ۔۔۔ 'میرے پاس تم ہو' مابعد دَور ڈرامے!

مگر ٹھہریے۔۔۔ پہلے ہمارے آنجہانی دوردرشن کا بھی کچھ ذکرِ خیر ہو جائے۔ بیسویں صدی کی آٹھویں/نویں دہائی کے مقبول عام ہندی/اردو ٹیلی ویژن سیرئیلز کو آئیے یاد کرتے ہیں۔۔۔
ہم لوگ، بنیاد، گل گلشن گلفام، کرم چند، پھٹیچر، صبح، چنوتی، یہ جو ہے زندگی، یہ دنیا غضب کی، منگیری لال کے حسین سپنے، رجنی، اڑان، واگلے کی دنیا، واہ جناب، بنتے بگڑتے، الٹا پلٹا، ککاجی کہیں، پئینگ گیسٹ، تمس، فرمان، سگما، شکتی مان، نکڑ، فوجی، سرکس، مسٹر یوگی، مالگوڑی ڈیز، وکرم اور بیتال، ایک دو تین چار، ہم پنچھی ایک ڈال کے، کتھا ساگر، اِدھر اُدھر، اسی بہانے، فلاپ شو، فرمان، دل دریا، دیکھ بھائی دیکھ، چندرکانت، مرزا غالب، بھارت ایک کھوج، الف لیلی، بیوم کش بخشی، باتوں باتوں میں، کچی دھوپ، کتھا ساگر، رامائن، مہابھارت اور ٹیپو سلطان کی تلوار۔۔۔۔

اسی دور میں روزنامہ "منصف (حیدرآباد)" کے اتوار ایڈیشن میں ایک کالم شائع ہوا کرتا تھا: "آنکھ نے دیکھا"۔
جس کو بہ پابندی پڑھنے اور پسند کرنے والے اردو داں قارئین کی بین الریاستی سطح پر ہوش ربا تعداد تھی۔ اس کالم میں دوردرشن کے گذشتہ ہفتہ بھر کے سیرئیلز کا مختصر مگر دلچسپ جائزہ لیا جاتا اور سیرحاصل تبصرہ کیا جاتا تھا۔ کالم نگار تھے، ہمارے معزز و محترم استاذئ مکرم پروفیسر بیگ احساس۔
ہم بھائی بہنوں میں کسی سے کسی سیرئیل کی کوئی قسط کسی سبب چھوٹ جاتی تو دوسروں سے اس کا زبانی خلاصہ تو مل جاتا مگر پھر بھی اتوار کو یہ جاننے کی بڑی تمنا رہتی کہ دیکھیں بیگ صاحب نے بھلا کیا تبصرہ کیا ہوگا اس قسط پر؟
اسی کالم میں بیگ صاحب نے 'کرم چند جاسوس' پر تبصرہ کیا تھا کہ کرمچند کے گاجر کھانے کی عادت، ابن صفی کے علی عمران کے چیونگم چبانے کی عادت سے مشابہت رکھتی ہے۔
اور سیرئیل 'فوجی' (جس کے ذریعے شاہ رخ خاں نے پہلی بار چھوٹے پردے پر داخلہ لیا تھا) میں 'ابھیمنیو رائے (کنگ خاں)' کی اداکاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا تھا کہ اس نوجوان کی اداکاری اور انداز و اطوار چھٹی دہائی کے دلیپ کمار سے متاثر لگتے ہیں، یہ بالی ووڈ میں گیا تو نمایاں مقام حاصل کرے گا۔

اور پھر یاد آیا کہ ہمارے والد صاحب (رؤف خلش مرحوم) جب سال میں ایک دو بار چھٹی پر سعودی عرب سے حیدرآباد آتے تو ہم لوگوں کو ذوق و شوق سے متذکرہ کالم پڑھتے دیکھ کر حیرت زدہ ہوتے تھے۔ یوں ایک بار انہوں نے مذاق مذاق میں کہہ دیا تھا:
"ارے تم لوگ کیا سمجھتے ہو، بیگ احساس خود سیرئیل دیکھ کر لکھتے ہیں یہ کالم؟ وہ ادبی اور تدریسی شخصیت ہے، اس کے پاس اتنی فرصت کہاں؟ ان کی بیگم دیکھتی ہیں ایک ایک سیرئیل پابندی سے اور خلاصہ سنا دیتی ہیں اپنے شوہر کو۔۔۔ اور بیگ صاحب لکھ دیتے ہیں اپنے ادبی ذوق اور قلم کی صلاحیتوں کے بل پر!"
بس صاحب، یہ سن کر ہمارا تو حیرت اور تعجب کے مارے منہ کھل گیا تھا۔

مگر آج اتنے برسوں بعد ۔۔۔ محسوس ہوتا ہے کہ والد صاحب نے گو مذاق میں کہا ہو مگر ہر دور کی ازدواجی زندگی کی سچائی کا کچھ حصہ بھی ہے یہ بات۔ ورنہ آپ کیا سمجھتے ہیں ۔۔۔
'میرے پاس تم ہو' کے دانش کی موت پر راقم نے ایویں ہی فیس بک پر پوسٹ لگائی ہوگی یا اپنی بیگم صاحبہ سے اس 'سانحۂ عظیم' پر تعزیت و دلجوئی کا اظہار کیا ہوگا؟
ایں؟ آپ آخر کیا سمجھتے ہیں؟
سچ مچ اتنی فرصت ہوتی ہے مردوں کے پاس؟ یعنی کہ برصغیر کا وہ شادی شدہ مرد، جس کی تازہ، منفرد و متنوع فکر اور رائے سے واقفیت حاصل کیے بغیر بائیڈن، مودی، خان، ایم۔بی۔ایس، اردگان کوئی بھی فیصلہ کرنے سے ہچکچاتے ہوں!!

اب آپ سے کیا چھپانا کہ برسہا برس سے شب کو جو لمحاتِ فرصت زوجہ محترمہ کے پہلو میں گزرتے ہیں، ان میں وہ تبصرے/تجزئے بھی شامل ہوتے ہیں جو ہماری زوجۂ تابندہ، دیکھے گئے ڈراما/سیرئیل/اوپیرا پر ہمیں گوش گزار فرماتی ہیں۔ زی، سونی، اسٹار پلس، کلرس کے سیرئیلس میں جب غیرمعیاری، لغو اور ہندو تہذیب و ثقافت کے مواد کی بھرمار ہوئی تو عام دکنی خواتین کی طرح ہماری بیگم کا رجحان بھی یو-ٹیوب پر جاری پڑوسی ملک کے اردو ڈراموں کی طرف منتقل ہو گیا۔
بہرحال آپ خود سوچیے کہ ہم جیسے کتاب دوست قاری کی معلومات کے دائرے میں ٹی۔وی ڈراموں کے یہ مکالمے قطعاً شامل نہ ہو پاتے، اگر بیگم اپنے ازدواجی حقوق سے بھرپور استفادہ کرتے ہوئے ہماری سمع خراشی نہ فرماتیں ۔۔۔۔
** آج بہو نے کھیر بنائی (تانا بانا)
** صاحب نے ماسی سے نکاح کر لیا (خواب نگر کی شہزادی)
** میں تو کہتی ہوں دونوں شادیاں کینسل کر دیں (چپکے چپکے)
** نہیں جانا مجھے گھر، وہ اپنی ناراضگی نبھائیں، میں اپنا رشتہ نبھاؤں گی (ڈنک)
** ماما کیا دادا ابو لوگ اسی کمرے میں رہیں گے؟ (اولاد)

مگر ۔۔۔ اس کا ایک منفی پہلو بھی ہے، یعنی کہ بقول ہماری اولاد کے۔ بچوں کا کہنا ہے کہ ۔۔۔ یہ جو مما ہر ہفتہ دس دن میں ابو سے روٹھ کر بات بند کرتی ہیں، اس کے پیچھے یہی بکواس ڈرامے ہیں۔ ہماری چھوٹی لاڈلی تو کھلے عام کہتی ہے:
فیک اسٹوریز، اسٹوپڈ سیرئیلس!!
مگر بچوں کو ہم سمجھاتے ہیں کہ اب اتنا بھی ایکسٹریمزم صحیح نہیں۔ یہ جو آپ لوگ عام دنوں میں اور اب افطار میں ڈائننگ ٹیبل پر نت نئی ڈشز دیکھتے اور مزے لے کر کھاتے ہیں ۔۔۔ مثلاً ۔۔۔
کشمیری پلاؤ، تفتان، لاہوری مرغ چھولے، افغانی چکن، نرگسی کوفتے، اٹالین سلاد، بوندی رائتہ، انناس اور کارن پکوڑے، بریڈ پڈنگ، شربتِ محبت۔۔۔ وغیرہ وغیرہ
اس کے پیچھے بھی تو یہی یو-ٹیوب چینلز ہیں۔

تو صاحب ۔۔۔ یہ ہے آج کے افطار کی ڈش:
دہی بڑے!!
مگر یہ ہمارے حیدرآباد والے دہی بڑے نہیں بلکہ پاکستانی یا نارتھ انڈین ٹائپ دہی بڑے ہیں جس میں کچھ مٹھاس بھی شامل ہوتی ہے۔ جبکہ حیدرآباد کے دہی بڑوں میں صرف کھٹاس ہوتی ہے۔ بچوں اور بچوں کے ابو کو یہ ڈش بہرحال پسند آئی۔
لیجئے دو تین آپ بھی چکھیے ۔۔۔ شرمائیے نہیں ۔۔۔ اپنا ہی گھر سمجھیے۔


نوٹ:
اگر آپ کا خیال ہو کہ ۔۔۔ افطار کے محض ایک آئٹم یعنی دہی بڑے (دہی بھلے) کی تصویر لگانے کی خاطر یہ اتنی لمبی چوڑی تحریر خواہ مخواہ لکھ ڈالی ہے تو اس کے جواب میں، ہم اپنے صحافی دوست شمس الرحمن علوی کی آج کی ایک ٹوئٹ (کا مفہوم) پیش کرنا چاہیں گے۔ وہ کہتے ہیں:
"یہ تاریخ ہے۔ سوسائٹی جو ہے سو ہے، سب لکھ کر محفوظ کر دینا چاہیے۔"

Indian and Pakistani tv drama serials

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں