شمس الرحمن فاروقی حیدرآباد میں - رؤف خلش کے خط میں ایک تذکرہ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2021/02/04

شمس الرحمن فاروقی حیدرآباد میں - رؤف خلش کے خط میں ایک تذکرہ

letter from Raoof Khalish
از: مکرم نیاز (حیدرآباد، انڈیا)۔

والد صاحب مرحوم کا ایک خط (بتاریخ نومبر-1996) جو مجھے ریاض (سعودی عرب) میں وصول ہوا تھا۔
*****

۔۔۔ پچھلے دنوں شمس الرحمن فاروقی حیدرآباد آئے تھے۔ ان کے اعزاز میں کئی نشستیں ہوئیں۔ 5/نومبر 1996ء کی شب مصحف اقبال توصیفی نے اپنے گھر پر فاروقی صاحب کو کھانے پر مدعو کیا تھا جس میں میرے علاوہ جیلانی بانو، انور معظم، غیاث متین، مظہر الزماں خاں اور علی ظہیر نے شرکت کی۔ اسی شام فاروقی کچھ دیر کے لیے غیاث متین کے گھر آئے۔ کچھ دیر ٹھہرے پھر شعیب میموریل لائبریری کے سامنے واقع شفیق فاطمہ شعریٰ کے گھر بھی گئے۔ مصحف کے ہاں رات دیر گئے ادب پر گفتگو ہوئی۔ انہوں نے مجھ سے کلام مانگا۔ میں نے ذریعہ ڈاک بھیجنے کا وعدہ کیا۔ اور وعدے کے مطابق اپنی چار نظمیں اور چار غزلیں ارسال کیں۔ چاروں نظمیں انہیں پسند آئیں اور دو غزلیں بھی۔ جس کے بارے میں لکھا:
"تمہاری نظمیں اور غزلیں خوب ہیں۔ صرف دو غزلیں میرے کام کی نہ نکلیں۔ ایک تو 'پاگل ہوا' والی اور دوسری غزل 'سرگم کا اکتارا رے' والی۔ یہ فقرہ "پاگل ہوا" کمزور شعرا نے برت برت کر پامال کر دیا ہے۔ ہندی غزل میرے مزاج کے خلاف ہے کیونکہ میں اردو کو ہندی سے الگ رکھنا چاہتا ہوں۔ کتاب کا اشتہار چھپ جائے گا!"

فاروقی نے اپنے کسی انٹرویو میں اقبال کے بعد جن پانچ بلند قامت نظم گو شعرا کی درجہ بندی کی ہے وہ اس طرح ہے:
(1) ن۔ م۔ راشد (2) میرا جی (3) اختر الایمان (4) مجید امجد (5) فیض احمد فیض۔
حالانکہ ان میں صرف فیضؔ کو قبولِ عام کی سند حاصل ہوئی ہے۔ اس کے بعد انہوں نے منیر نیازی اور قاضی سلیم کے نام گنوائے ہیں۔ خیر۔
خط کے آخر میں مجید امجد کی مشہور نظم "آٹو گراف" درج کر رہا ہوں جو تقریباً 30-35 سال پرانی (اب 2021 کے مطابق، 55-60 سالہ قدیم) نظم ہے لیکن آج بھی کرکٹ کھلاڑیوں کی چاہتوں کے پسِ منظر میں تازہ لگتی ہے۔
(نظم نیچے درج کی گئی ہے)۔

*****
ملاحظات:
1- والد ماجد رؤف خلش کا انتقال بعمر 79 برس، 2/جنوری 2020 کو ہوا تھا اور فاروقی صاحب کا انتقال بعمر 85 سال 25/دسمبر 2020 کو ہوا۔

2- رؤف خلش کا قیام سعودی عرب میں 1981 تا 1996 رہا۔ اور سعودی ہی میں میرے قیام کا دورانیہ 1995 تا 2016 رہا ہے۔ 1996 تا 2000 والد محترم نے خطوط نویسی کے ذریعے رابطہ قائم رکھا۔ بعد کے ادوار میں یہ رابطہ فون اور ای-میلز میں تبدیل ہو گیا تھا۔

3- نجی نوعیت کے ان خطوط میں ہمیشہ دو چار پیراگراف علمی و ادبی بھی رہے ہیں، جسے ایک باپ کی طرف سے اپنی اولاد کو علمی ورثے کی منتقلی بھی کہا جا سکتا ہے۔

Shamsur Rahman Farooqi and Majeed Amjad in letter of Raoof Khalish

آٹو گراف
مجید امجد

کھلاڑیوں کے خودنوشت دستخط کے واسطے
کتابچے لیے ہوئے
کھڑی ہیں منتظر حسین لڑکیاں
ڈھلکتے آنچلوں سے بےخبر حسین لڑکیاں

مہیب پھاٹکوں کے ڈولتے کواڑ چیخ اٹھے
ابل پڑے الجھتے بازوؤں، چٹختی پسلیوں کے پُرہراس قافلے
گرے، بڑھے، مڑے بھنور ہجوم کے

کھڑی ہیں یہ بھی راستے پہ اک طرف
بیاضِ آرزو بکف
نظر نظر میں نارسا پرستشوں کی داستاں
لرز رہا ہے دم بدم
کمانِ ابرواں کا خم
کسی عظیم شخصیت کی تمکنت
حنائی انگلیوں میں کانپتے ورق پہ جھک گئی
تو زرنگار پلوؤں سے جھانکتی کلائیوں کی تیز نبض رک گئی

کوئی جب ایک نازِ بےنیاز سے
کتابچوں پہ کھنچتا چلا گیا
حروفِ کج تراش کی لکیر سی
تو تھم گئیں لبوں پہ مسکراہٹیں شریر سی

وہ باؤلر، وہ ایک مہوشوں کے جمگھٹوں میں گھر گیا
وہ صفحۂ بیاض پر
بصدِ غرور، کلکِ گوہریں پھری
حسین کھلکھلاہٹوں کے درمیاں "وکٹ" گری

میں اجنبی، میں بےنشاں
میں پا بہ گِل
نہ رفعتِ مقام ہے، نہ شہرتِ دوام ہے
یہ لوحِ دل، یہ لوحِ دل
نہ اس پہ کوئی نقش ہے
نہ اس پہ کوئی نام ہے!

***
©مکرم نیاز
#خطوط
#یادیں

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں