مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2021/01/28

مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم

shahpar rasool urdu sher 1
از: مکرم نیاز (حیدرآباد، انڈیا)۔

مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کر دیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف
(شہپر رسول)

کبھی کبھی کچھ دوستوں کی ٹائم لائن کی پوسٹس ماضی میں بھی لے چلی جاتی ہیں۔ مذکورہ بالا شعر میری بھی یادداشت میں کئی لحاظ سے محفوظ ہے۔
دو دن قبل برادرم رضوان الدین فاروقی نے اس شعر کی وضاحت میں، شاعر شہپر رسول پر تحریر کردہ ڈاکٹر خالد محمود کے ایک خاکہ کا ایک دلچسپ اور متاثرکن اقتباس شئر کیا (متذکرہ اقتباس کی نقل نیچے درج کی جا رہی ہے)۔

ڈاکٹر خالد محمود نے کتنا سچ لکھا کہ ۔۔۔۔
"یہ شعر جو مہاجرین کی پیشانیوں پر بوقت ہجرت چسپاں تھا بعد میں جب مہاجرین سے ملاقاتیں ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اب وہ پیشانیوں سے اتر کر ان کے دل و دماغ اور روح پر کندہ ہو گیا ہے۔"
shahpar rasool urdu sher 4

یہ شعر میری بھی بیاض میں اس وقت درج ہوا تھا جب میں پہلی بار (اواخر 1995 میں) اپنے وطن سے تلاش معاش کی خاطر سعودی عرب کی سمت روانہ ہونے والا تھا۔ پھر سعودی عرب کی سرزمین پر ستمبر-1995 میں پہلی بار وارد ہوتے ہی یہ شعر میں نے رسالہ "دوشیزہ" (کراچی) کے 'تیرنیم کش' کالم میں اپنے پسندیدہ شعر کے طور پر ارسال کر دیا تھا۔ اور نومبر یا دسمبر (1995) کے شمارہ میں یہ شعر نہ صرف شامل ہوا بلکہ اول انعام یافتہ بہترین شعر بھی قرار پایا۔
آج اتفاق سے پرانے کاغذات میں رسالہ 'دوشیزہ' کے اس صفحہ کی زیراکس کاپی نکل آئی۔
shahpar rasool urdu sher 2

اس زمانے کی ڈائری بھی اتفاق سے محفوظ ہے، لہذا اس صفحہ کا عکس بھی ملاحظہ فرمائیں۔
اس صفحہ پر پہلا شعر جن ارشد عبدالحمید کا ہے:
مٹی کو چوم لینے کی حسرت ہی رہ گئی
ٹوٹا جو شاخ سے تو ہوا لے گئی مجھے
یہ ارشد صاحب کہیں ٹونک کے ہمارے محترم پروفیسر ارشد عبدالحمید تو نہیں؟

آخر میں ایک گذارش بزرگ محترم فاروق ارگلی صاحب سے ۔۔۔۔ کہ پچھلے دنوں انہوں نے اپنی ٹائم لائن پر لکھا تھا:
"زیادہ کمانے کی ہوس دوسرے ملکوں تک لے جاتی ہے۔ پھر وہاں رہ کر ہجرت اور مہجری ادب ودب کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ طرہ یہ کہ لوگ سنجیدگی سے سنتے پڑھتے ہیں۔۔۔"

مہجری ادب پر آپ کے تحفظات ہو سکتے ہیں، خود مجھے بھی ہیں۔ لیکن مودبانہ درخواست ہے کہ خدارا اپنے الفاظ اور رویے سے "ہجرت" کے موضوع کی اس قدر توہین نہ کیجیے کہ اسے صرف "زیادہ کمانے کی ہوس" تک محدود کر دیا جائے۔ ہجرت کا موضوع نہ صرف اپنے اندر وسیع تر مفہوم رکھتا ہے بلکہ اس کے ساتھ مذہبی تقدس بھی وابستہ ہے۔

رضوان الدین فاروقی کی ٹائم لائن سے ماخوذ:
shahpar rasool urdu sher 3
ڈاکٹر خالد محمود رقمطراز ہیں کہ تقریباً تیس پینتیس برس پہلے کی بات ہے، جب ٹیلی ویژن کی گرفت گھروں پر اتنی مضبوط نہیں ہوئی تھی کہ ہمارے کان ریڈیو کی آواز کو ترس جاتے۔ نہ مشاعرے نوٹنکیوں میں تبدیل ہوئے تھے۔ چنانچہ ایک دن ہم نہایت اطمینان سے گھر کے ریڈیو پر ایک مشاعرے کا لطف لے رہے تھے کہ ریڈیو سے اچانک یہ شعر پھڑکتا ہوا نکلا اور آناً فاناً دل میں اتر کر بیٹھ گیا۔
شعر کیا تھا حیاتِ انسانی کی طویل ترین داستان سفر کے الم ناک مناظر کا متحرک پیکر تھا جسے شاعر کی مہارت فن نے تاثیر کا طلسم بنا دیا تھا۔ شاعر کا نام شہپر رسول نشر ہوا جو کچھ دنوں تک یادداشت کی زینت بنا رہا۔ پھر طاقِ نسیاں کی نذر ہوگیا۔ تاہم یہ شعر نہ صرف خود یاد رہا بلکہ اس نے تاریخ کے ناقابلِ فراموش اور تاریخ ساز واقعات بھی یاد دلا دیے۔ مجھے یاد آیا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پیارے وطن مکہ معظمہ کو خیر باد کہہ کر مدینہ طیبہ کی جانب رخ کرکے فرماتے ہیں کہ اے ارض مکہ تو مجھے دنیا کی ہر زمین سے زیادہ عزیز ہے ۔ میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا مگر تیری قوم نے مجھے یہاں سے نکلنے پر مجبور کردیا۔ وطن عزیز کے تئیں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تڑپ اور انداز سفر کی اس مصرع نے کیسی سچی عکاسی کی ہے ع:
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف
تقسیم ہند کا خیال آیا تو محسوس ہوا کہ لاکھوں مہاجرین کی پیشانیوں پر یہ شعر چسپاں ہے اور ادھر سے آنے والا یا اِدھر سے جانے والا ہر فرد اس شعر کی منہ بولتی تصویر بنا ہوا ہے۔
مجھے بھی لمحۂ ہجرت نے کردیا تقسیم
نگاہ گھر کی طرف ہے قدم سفر کی طرف
یہ شعر جو مہاجرین کی پیشانیوں پر بوقت ہجرت چسپاں تھا بعد میں جب مہاجرین سے ملاقاتیں ہوئیں تو معلوم ہوا کہ اب وہ پیشانیوں سے اتر کر ان کے دل و دماغ اور روح پر کندہ ہوگیا ہے۔ یہ مناظر جوہ ہیں جو کتابوں اور گواہوں کے توسط سے ہماری معلومات کا حصہ بنے تھے مگر پھر ایک مختلف اور منفرد جذباتی منظرہم نے بچشم خود دیکھا جو اس شعر کو نئی تشریح و تعبیر عطا کرتا ہے۔
جب ہمیں حج کی سعادت حاصل ہوئی اور طوافِ وداع سے فارغ ہوکر مطاف سے کوچ کرنے کا وقت آیا تو ہماری آنکھوں نے دیکھا کہ تمام حجاج کرام بھاری بھاری قدموں سے بادلِ ناخواستہ حرم پاک سے رخصت ہورہے ہیں۔ بار بار پیچھے مڑکر دیکھتے ہیں۔ ان کے قدم سفر کی طرف ہیں مگر ان کی گردنیں مستقل پیچھے گھومی رہتی ہیں اور حسرت بھری اشک آلود آنکھیں اس وقت اللہ کے گھر کو دیکھتی رہتی ہیں جب تک کہ وہ منظر آنکھوں سے اوجھل نہ ہوجائے بالکل وہی منظر ع:
نگاہ گھر کی طرف ہے اور قدم سفر کی طرف
بے شمار نگاہوں اور قدموں کی تقسیم کا حال زار پڑھ کر، سن کر اور پھر دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ اس شعر کا دامن تو دامنِ قیامت سے بندھا ہوا ہے۔ یہ شہپر صاحب سے میری پہلی شناسائی تھی اور وہ بھی غائبانہ۔

بحوالہ: ماہنامہ شگوفہ خالد محمود نمبر میں شامل خاکہ "قصہ شہپر رسول کا" سے اقتباس


***
©مکرم نیاز
#شعر
#ہجرت

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں