اے ٹو زیڈ سٹی فرنیچرس اور وعدہ تیرا وعدہ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2021/01/21

اے ٹو زیڈ سٹی فرنیچرس اور وعدہ تیرا وعدہ

a2z-furnitures
از: مکرم نیاز (حیدرآباد، انڈیا)۔

(بسم اللہ الرحمن الرحیم)
اے ٹو زیڈ سٹی فرنیچرس
(ماشاءاللہ)

برسہابرس گزر گئے حیدرآباد میں۔۔ مگر حسرت ہی رہ گئی کہ کبھی ایسا نام بھی دیکھیں:
الف تا ی فلاں فلاں

حالانکہ یار لوگوں نے "لِمرا" جیسے نام سے بھی دکانیں، ہوٹلیں، پان کے ڈبے چلا رکھے ہیں (ل-م-ر-ا ، لاالہ الااللہ محمد الرسول اللہ کے پہلے حروف کا مخفف ہے)
اسکول کے دنوں کی #مرزا والے مکالمے کی یاد آ گئی۔ انگریزی کی گجراتی النسل ٹیچر کلاس میں داخل ہوتے ہی ہر طالب علم سے پوچھتی تھیں: کل والا سبق یاد کر کے آ گئے؟
مرزا کے جواب پر ہمیشہ پچھلی بنچوں سے ہنسی کے فوارے چھوٹتے تھے اور میڈم غصہ سے گھور کر آگے بڑھ جاتی تھیں۔ مرزا کا جواب ہوتا تھا:
یس مام! الف ٹو زیڈ!!

a2z-furnitures-1
موبائل کی کھچاکھچ پر ایک نوجوان لڑکا دکان سے نکل کر دوڑتا آیا:
"کیا صاب، کئیکو لے رئیں پکچراں؟"
"فیس بک پہ ایڈورٹائز کرتَوں بھائی، اب دیکھو کل سے اِتے گاہکاں آتے کہ سر کھجانے کی فرصت نئیں ملتی۔۔۔"
نوجوان کی آنکھوں میں چمک ابھری، اور روایتی کاروباری مکالمہ جاری ہو گیا:
"صاب! ہماری دکان تالاب کٹہ کی سب سے مشہور دکان ہے، یہاں فرنیچر کا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا سامان بہترین کوالیٹی کا، نہایت مناسب دام میں ملتا، ہم اعلیٰ ساگوان کی لکڑی استعمال کرتے اور ۔۔۔۔"
ہم نے ہاتھ اٹھا کر روک دیا:
"دیکھو میاں، تصویر فری میں لگ جاتی، نو پرابلم۔ مگر آگے کی باتوں کے لیے ایک بریانی پارسل پڑتا۔۔۔"
"دو پارسل سویگی سے منگوا لیجیے صاب، آپ ذرا جی-پے نمبر دو اپنا"
نوجوان نے جوش میں اپنے موبائل پر جی-پے کھولا۔ ہم نے اس کے کندھے پر تھپکی دے کر اس کی گرمجوشی کو کم کیا اور موبائل نمبر دینے کے بجائے دفتر کا نام اور لوکیشن سمجھا دیا۔ اس نے یقین دہانی کروائی کہ بس بارہ بجے تک دو پارسل بریانی سیدھا آپ کے ڈیسک پر ہوں گی۔

a2z-furnitures-2
اب دوپہر ایک بجے، کائینات کی بےثباتی اور معاشرہ کی بےحسی پر غور کرتے اور گھر سے لائے ٹفن کی بھنڈی روٹی کے لقمے توڑتے سوچ رہے ہیں کہ ۔۔۔
آہ! وعدہ ترا وعدہ ۔۔۔
کاش کہ ہماری قوم وعدہ وفا کرنے کے ایک چھوٹے سے اخلاقی اصول پر ہی عمل پیرا ہو جائے تو انقلاب آ جائے۔۔۔ نوجوان لمبی ہوائیاں چھوڑنے کے بجائے کام کاج کاروبار نوکری سے مخلص ہو جائیں، شادیاں جلد ہونے لگیں، خلع طلاق کے واقعات کم ہو جائیں، دوست اقربا کی رنجشیں کدورتیں ختم ہو جائیں، قرض خواہ اور قرض دار ایک دوسرے کے تئیں بےفکر رہا کریں ۔۔۔

سوچتے سوچتے اچانک موبائل پر نظر پڑی۔ چند منٹ قبل کا آخری کال مرزا کا تھا، انہوں نے یاددہانی کرائی تھی کہ:
"میاں! وہ پچھلے ماہ کے ہزار روپے کا ادھار کب لوٹاتے؟ پہلی کو بولے تھے، بیس دن گزر گئے، آج اکیس ہے!"

آہ! وعدہ میرا وعدہ !!

***
©مکرم نیاز
#مرزا
#Signboard

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں