آصفیہ اسٹیٹ سنٹرل لائبریریتم نام تو بدل دوگے مگر تاریخ بدل نہ پاؤگے!!
یہ "کتب خانہ آصفیہ" فروری 1891ء میں مولوی سید حسین بلگرامی نواب عماد الملک کی کوششوں سے شروع کیا گیا تھا، لیکن 1936ء میں آصفیہ اسٹیٹ سنٹرل لائبریری کی موجودہ عمارت کی 3 لاکھ روپیے کی لاگت سے تعمیر مکمل ہوئی تھی اور اس کا افتتاح آصف جاہ سابع نواب میر عثمان علی خان بہادر نے بہ نفس نفیس انجام دیا۔
اس موقع پر حضور نظام نے فرمایا تھا کہ یہ کتب خانہ ملک کے دوسرے کتب خانوں سے کسی طرح کم نہیں۔ یہاں اپنی ممتاز نوعیت و خصوصیت کی حامل کتب کا قمیتی ذخیرہ موجود ہے۔
حضور نظام نے اس لائبریری میں سنسکرت ، تلگو ، مرہٹی ، کنڑی ، اور ہندی کی قیمتی کتابیں رکھنے کا حکم دیا تاکہ اسکالرس کو مدد مل سکے۔
مزید پڑھیے یہاں:
آصفیہ اسٹیٹ سنٹرل لائیبریری
حیدرآباد سٹی گرندھالیہ سمستھا (شہر حیدرآباد لائبریری تنظیم)ریاستی حکومت کے زیرانتظام مرکزی لائبریری (اشوک نگر، حیدرآباد)
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا
ابھی کل ہی آصفیہ لائبریری کے نام کی تبدیلی پر آزردگی سے اظہار خیال کیا تھا کہ آج صبح ایک اور مشہور سرکاری لائبریری کا دورہ ہوا، اور اس کے تبدیل شدہ نام کو دیکھ کر علامہ کلیم عاجز کا مصرع یاد آ گیا:
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو
1985 تا 1995 کے دوران اس لائبریری سے بھی راقم نے بہت استفادہ کیا ہے حالانکہ یہ گھر سے بہت دور تھی مگر جہاں شوق وہاں راہ، بقول اُس دور کے حیدرآبادی دوستوں کے مطابق: لاکھوں روپے کی بسیں فراہم کر رکھی ہیں حکومت نے شہریوں کے آسان سفر کے لیے۔
خیر، عرض ہے کہ۔۔۔ ایک گورنمنٹ لائبریری کے نام کی تبدیلی زیادہ حیرت انگیز نہیں مگر جس طرز پر ایک لائبریری کا اصل نام حذف کر کے دوسری لائبریری کو نیا نام دیا گیا ہے وہ ضرور تعجب خیز ہے۔
حیدرآباد سٹی گرندھالیہ سمستھا کی مرکزی عمارت کا سنگِ بنیاد اس وقت کے صدر جمہوریہ وی۔وی۔گری نے 9/اکتوبر 1969ء کو اشوک نگر (حیدرآباد دکن) میں نصب کیا تھا۔ اس عظیم تر لائبریری کی پورے شہر حیدرآباد میں تقریباً 85 ذیلی شاخیں ہیں۔ اور مرکزی لائبریری سمیت تقریباً ہر اس برانچ لائبریری میں، جہاں اردو داں قارئین موجود ہیں، اردو اخبار رسائل اور کتب کا علیحدہ سیکشن آج بھی قائم ہے۔
ہرچند کہ آصفیہ لائبریری اور اس سٹی سنٹرل لائبریری کا کوئی تقابل و موازنہ نہیں۔۔۔ مگر۔۔۔۔۔
حکومت نے اس لائبریری کو جس شخصیت کے نام سے موسوم کیا ہے، یعنی
وٹی کوٹہ الوار سوامی [Vattikota Alwar Swamy]
ان کا تعلق حیدرآباد کے قریبی ضلع نلگنڈہ سے ہے، پیدائش 1915 کی اور وفات اج سے ٹھیک ساٹھ سال قبل (5/فروری 1961)۔ جہاں 'لائبریری تحریک' کے اعلیٰ سربراہان میں ان کا شمار ہوتا ہے وہیں کمیونسٹ تحریک سے بھی ان کی گہری وابستگی واضح تھی۔ ونیز سوامی جی تلگو زبان کے سب سے پہلے ناول نگار اور تقریباً 35 کتب کے مصنف رہے ہیں۔ اور۔۔۔
جس طرح مخدوم محی الدین کے خلاف نظام سابع کا حکم جاری ہوا، بالکل اسی طرح یہ بھی شاہی حکومت اور جاگیردارانہ نظام کے خلاف اپنی کارگزاریوں کے سبب، نظام حیدرآباد کے زیرعتاب آئے اور شاہی حکم نامہ کے زیرتحت انہیں وٹی کوٹہ جیل میں محروس کر دیا گیا۔
اور آج نظام سابع کی قائم کردہ لائبریری سے تو ان کا نام ہٹا دیا گیا
اور سرکار کی طرف سے قائم شدہ لائبریری، سوامی جی کے نام سے موسوم کر دی گئی ہے۔
بقول حیدر علی آتش:
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
***
©مکرم نیاز
#لائبریری
#حیدرآباد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں