ہندوستان میں مسلمان - پاکستانی مسلمانوں کی غلط فہمیاں - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2020/12/19

ہندوستان میں مسلمان - پاکستانی مسلمانوں کی غلط فہمیاں

india-pakistan
سوشل میڈیا پر عموماً ہندوستان و پاکستان کے تقابل و موازنہ کے دوران دونوں طرف کے مسلمان غلط فہمی یا مبالغہ آرائی کا شکار ہوتے ہیں۔ اسی ضمن میں ایک ہندوستانی مسلمان کی جانب سے چند غلط فہمیوں کا ازالہ کرتی ہوئی ایک تحریر یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
تحریر بشکریہ: جناب شیرخاں جمیل احمد کی فیس بک ٹائم لائن
"من كان بيته من زجاج فلا يرمي الناس بالحجر"
(شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسروں کی طرف پتھر نہیں پھینکا جاتا)

آج فیس بک کھولا تو ہمارے ایک عزیز دوست کی پے در پے دو پوسٹ پر نظر پڑی:
"پاکستان کی قدر و منزلت اگر معلوم نہیں تو کسی انڈین مسلمان سے مل کر معلوم کریں، یقیناً وہ بہت خوب جانتے ہیں، پاکستان اللہ کا انعام رحمت ہے مسلمان کے لئے"۔

پھر تھوڑے وقفہ کے بعد انہوں نے ہی ایک اور پوسٹ یہ لگائی:
"یقیناً پاکستان ایک نعمت ہے اگر آپ کو معلوم نہیں تو ایک دو ماہ انڈیا میں رہ کر دیکھیں وہاں مسلم ہندوؤں کے حالات"۔

پہلی پوسٹ نظر انداز کر دیا تھا، لیکن تھوڑی ہی دیر میں جب دوسری پوسٹ اسی عنوان پر لگائی گئی اور اس میں یہ لکھا کہ "ایک دو ماہ رہ کر دیکھیں۔۔۔۔"
نیز پہلی پوسٹ میں سوال کیا گیا تھا کہ :
" کسی انڈین مسلماں سے مل کر معلوم کریں۔۔۔"

میں ایک محب وطن انڈین ہوں۔ لہذا مجھے ضروری لگا کہ اس پر وضاحتی بیان لکھا جانا چاہئے تاکہ محترم کاتبِ تحریر کو اور قارئین کو بھی مادر وطن انڈیا اور وہاں کے مسلمانوں کے تئیں جو Deep غلط فہمی پیدا ہو رہی ہے وہ زائل ہو جائے۔

محترم ! ایسی پوسٹ عموماً آدھی معلومات یا عدم معلومات کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔ الناس أعداء لما جهلوا ! اور عموماً ایسی پوسٹ سے فائدہ سے زیادہ نقصان ہوتا ہے۔ اور ایسی باتیں دلوں میں زہر گھول دیتی ہیں۔ اور درد اور کرب کو بڑھاتی ہیں۔ زخم پر نمک چھڑکنے کا کام کرتی ہے۔

میں کہتا ہوں کہ آپ انڈیا جاکر دیکھ آئیں!
آپ کو ضرور انڈیا پاکستان سے اچھا نہیں تو کم از کم برا ہرگز ہرگز نہیں لگے گا !
پہلی بات تو یہ ہے کہ انڈیا کے بعض ہی علاقے ہیں جو حساس (sensitive) ہیں، ورنہ اکثر علاقے پُر امن ہیں۔ میں ہر سال فیملی کے ساتھ اپنے پیارے وطن انڈیا جاتا ہوں۔ مہینہ ڈیڑھ مہینہ رہ کر آتا ہوں۔ خواتین برقعہ اور نقاب کا اہتمام کرتی ہیں۔ بذریعہ سڑک، ریل، ہوائی جہاز سے ملک کے مختلف حصوں میں پھیلے رشتہ داروں سے ملاقات کے لئے سفر ہوتا ہے۔ مجھے برطانیہ اور انڈیا میں بہت زیادہ فرق کبھی بھی محسوس نہیں ہوا ہے۔ بالخصوص جنوبی ہند، جہاں کی آبادی کی اکثریت تعلیم یافتہ ہے۔ ملک میں ہزاروں چھوٹی بڑی اسلامی درسگاہیں ہیں۔ روزانہ بڑی بڑی سینکڑوں مسجدیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ مسلمان بھی اپنے بل بوتے پر چھوٹے بڑے کاروبار کرتے ہیں۔ ملک میں سب سے بڑی چیریٹی کا کام ایک مسلمان 'عظیم پریم جی' کرتے ہیں۔ ملک میں مسلمان کئی معروف عصری ادارے بھی بڑی کامیابی کے ساتھ چلا رہے ہیں۔
ایک سو تیس کروڑ آبادی والے اس ملک میں لگ بھگ بیس فیصد مسلمان جس حالت میں بھی ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ عالمی تناظر میں وہ بہت غنیمت ہے، اللہ کا شکر ہے۔ مادر وطن کے چند مخصوص ذہنیت رکھنے والے طبقات کے سوا، ملک کی دیگر اقوام اور آبادی کے ساتھ مسلمانوں کے بہت اچھے مراسم ہیں۔ اور جو لوگ مسلمانوں سے دشمنی کرتے ہیں وہ غلط فہمی اور لا علمی ہے ورنہ جس دن بھی یہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کو پہچان جائیں گے وہ بھی نہ صرف ان کے حمایتی بن جائیں گے، بلکہ ان میں گھل مل جائیں گے۔
دنیا مشاہدہ کر رہی ہے کہ کھلے اور کٹر قسم کے دشمن بھی اسلام کی دولت سے مالامال ہو رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ غیر مسلم نوجوان طبقہ اسلام اور مسلمانوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اسلام سے قریب ہونے کا یہ سلسلہ مسلسل جاری ہے اور إن شاءالله قيامت تک جاری رہے گا۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبائیں گے۔
فلله الحمد فى الاولى والاخرة!

دوسری بات پاکستان کی اکثریت مسلمانوں کے ہونے کے باوجود وہاں کا نظامِ حکومت، بدامنی اور جرائم کی بہتات دنیا کے سامنے اسلام اور مسلمانوں کو رسوا کر نے کا سبب بن رہی ہے؛ قتل، لوٹ کھسوٹ اور لاء اینڈ آرڈر کی جو حالت وہاں ہے وہ آپ، میں اور ساری دنیا اچھی طرح جانتی ہے۔ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ یہ میرا موضوع ہے۔

اور پھر انڈیا میں مسلمانوں کا سامنا یا مقابلہ غیر اقوام کے ان چند مخصوص طبقات سے ہے جس کی وجہ سے مسائل ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک فطری چیز ہے۔ اسلامی تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں کلمہ گو ہی آپس میں گتھم گتھا اور برسر پیکار ہیں، آپس ہی میں ایک دوسرے کے جانی دشمن نظر آتے ہیں۔
مادر وطن میں بابری مسجد تو غیروں نے شہید کی تھی، لیکن پاکستان کی مساجد کے سیکڑوں مصلیوں کو مسلمانوں نے ہی تو شہید کر ڈالا ؟ شیعہ سنی فساد تو ایک عام سی بات ہے اور گلی گلی کا مسئلہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اب تو قادیانی ہر محکمہ پر قبضہ کر رہے ہیں۔
برادرگرامئ قدر، موازنہ کی بجائے گھر کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے۔ خود کانچ کے محل میں رہ کر دوسروں پر پتھر پھینکنا کہاں کی دانشمندی ہے؟!

تیسری بات یہ کہ انڈیا کے مسلمان اپنے دعوتی مشن میں پورے نہیں تو کسی حد تک ضرور کامیاب ہیں۔ روزانہ سینکڑوں لوگ حلقہ بگوش اسلام ہو رہے ہیں۔ آبادی کے چند فیصد ایک مخصوص طبقے کی سختیوں سے ان کا ایمان بھی نکھر رہا ہے۔ یہ اللہ کی سنت ہے وہ اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ اللہ تعالی کے اس فرمان پر ہماری نظر ہونی چاہئے:
"أحسب الناس أن يتركوا أن يقولوا آمنا وهم لا يفتنون ، ولقد فتنا الذين من قبلهم فليعلمن الله الذين صدقوا وليعلمن الكاذبين (العنكبوت)"۔
اللہ تعالی ہندی ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کے سارے مسلمانوں کو ثبات قدمی عطا کرے آمین۔

آخری سے پہلی بات یہ کہ مسلمان مسلمان ہے، ہمارا بھائی ہے۔ ہمارے جسم کا ایک حصہ ہے؛ چاہے وہ کالا ہو، گورا ہو اور دنیا کے کسی بھی کونے کا باسی ہو۔ زمین اور سارے ملک اللہ ہی کی ملکیت ہے۔
ہر مُلک ملکِ ماست کہ ملکِ خدائے ماست

کسوٹی ایمان اور عمل صالح ہے۔ اسلام میں ملک ، وطن، زمین، جگہ اور سرحدوں کا کیا اعتبار ہے؟
سلمان از فارس، بلال از حبش، صھیب از روم
ز خاک مکہ ابو جھل ایں چہ بو العجبی

چنانچہ کامیابی اور ناکامی کا دارومدار بس ایمان اور عمل صالح پر منحصر ہے۔ ورنہ اُم القری مکہ مکرمہ میں بھی پیدا ہونے والا، وہاں جینے اور مرنے والا شخص بھی کفر اور بداعمالیوں کی وجہ سے جہنم رسید ہوگا۔۔۔ أليس كذالك ؟

آخری بات یہ ہے کہ جب کبھی بھی انڈیا پاکستان کا موازنہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو انڈیا کا مسلمان "متحدہ ہندستان" کو یاد کرنے لگ جاتا ہے اور انڈیا کے بعض علاقوں کے حالات کا بنیادی سبب ملک کی تقسیم ہی کو ٹھہراتا ہے۔ ملک اگر تقسیم نہ ہوا ہوتا تو آج متحدہ ہندستان میں مسلمانوں کی تصویر ہی کچھ اور ہوتی!
وہ بلاشبہ ایسا مانتا ہے۔ اس کے سامنے مولانا آزاد رحمۃ الله عليہ کی وہ ساری پیشن گوئیاں آکر کھڑی ہو جاتی ہیں جو آج حقیقت بن کر ہمارے سامنے موجود ہیں۔ پچھلے سال جیو نیوز پاکستان نے بھی مولانا آزاد رحمۃ الله کی پیشین گوئیوں کو پیش کرکے کھلے الفاظ میں ان کو تسلیم کیا تھا۔

بہرحال اب ماضی کے فیصلوں پر تبصرے فضول ہیں۔ جو ہونا تھا وہ تو ہو گیا۔ اس لئے دانشمندی یہ ہے کہ ہم اب مستقبل کی فکر کریں اور امتِ دعوت بن کر لوگوں کو جہنم میں جانے سے بچائیں اور جنت میں لے جانے کی تدبیر کریں۔ اور اس راہ میں آنے والی ہر تکلیف کا سامنا کریں۔ صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام کے پیغامِ امن کو عام کرنے پر توجہ دیں۔ یہی ہمارا بنیادی مشن ہونا چاہئے۔
ملک کے بعض علاقوں میں ہندی مسلمانوں پر گویا مکی دور کی ایک جھلک نظر آتی ہے لیکن یقین مانئے وہ تکلیفیں اور آزمائشیں نہیں ہیں جو ہمارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ أجمعین پر آن پڑی تھیں۔
مادر وطن کے ان غیر مسلموں کے لئے ہندی مسلمان وہی دعا کرتے ہیں جو دعا ہمارے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے حملہ آوروں کے لئے کی تھی:
اللهم اهد قومى فانهم لا يعلمون. آمين

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں