دکن کا انمول رتن : شاذ تمکنت
مضمون: ڈاکٹر رؤف خیر
اردو میں شاذ تمکنت اک ایسا نام ہے جو شعر ادب کے طالب علم کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوسکتا۔ جب کبھی حیدرآباد کے سرکردہ شعراﺀ کا ذکر چھڑے گا شاذ تمکنت کا نام ضرور لیا جائے گا۔ انہوں نے غزل کو اس کے لغوی معنوں سے دور ہونے نہیں دیا۔ ان کی شاعری پڑھتے ہوئے بار بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اک خوب رو عاشق خوب صورت محبوبہ کی خدمت میں خوش سخنی کے جوہر دکھا رہا ہے۔
شاذ تمکنت خوب صورت شخصیت کے مالک تو تھے ہی خوش لباس و خوش اطوار بھی تھے۔ ان سے مل کر کوئی شخص کبھی اجنبیت محسوس نہیں کرتا تھا۔ شاذ میں محبوبانہ ادائیں اور محبانہ صلاحیتیں دونوں متوازی چلتی تھیں۔ وہ اپنے ملنے والوں کو خوش کرنے کا ہنر جانتے تھے۔ خوش گفتاری تو جیسے شاذ پر ختم تھی۔ وہ حیدرآبادی تہذیب کا جیتا جاگتا نمونہ تھے۔ ہر شخص شاذ کو پسند کرتا تھا۔ اور ان کے چاہنے والوں میں خود شاذ بھی شامل تھے۔ انھیں اپنے آپ سے عشق تھا۔ وہ اپنی غزل کے عاشق تھے۔ انھیں اپنی نظمیں بھی محبوب تھیں۔ اپنی ذات اور اپنی تخلیق کسے پیاری نہیں ہوتی۔ وہ شعر و ادب کو محض شعر و ادب سمجھتے تھے اور مقصدیت اور پروپیگنڈے سے ماوراﺀ۔ اپنے پہلے شعری مجموعہ کے پیش لفظ میں " لطف خلش پیکاں " کے عنوان سے انہوں نے لکھا تھا۔
" میں شعر کسی پیغام کی خاطر یا درس دینے کے لیے نہیں کہتا بلکہ اس لیے کہتا ہوں کہ کچھ باتیں جلوت میں ممکن نہیں ہوتیں اس لیے خلوت کے انتخاب کو ناگزیر جانتا ہوں۔
اگر کوئی شاعر (جو تشکیل و تعمیر کے مرحلے میں ہو) یہ کہتا ہو کہ وہ شعر کے ذریعے اصلاح ملک و قوم کرتا ہے تو مجھے یہ دعوی ماننے میں تامل ہو گا۔ دیانت داری کی بات یہ ہے کہ شعر ہو یا افسانہ اول اول فن کار اپنی تسکین کے لیے اپنی انا کو سکون بخشنے کی خاطر تخلیق کرتا ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ متاع ہنر آخر آخر اتنی دل پذیر ہو جائے کہ شاعر اپنے پر اہل دہر کا قیاس کرے۔ "
مذکورہ پیش لفظ سے شاذ تمکنت کا نظریہ شعر کھل کر سامنے آتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ اہل ذوق ان کے نظریہ شعر سے اتفاق کریں۔ شعر و ادب میں لفظ اور اس کا تخلیقی استعمال بہرحال اہم ہوتا ہے یہ الگ بات ہے کہ حالی سے تا حال موضوع اور مقصدیت کی اہمیت پر زور دیا جاتا رہا ہے شعرو ادب کو بہ ہر صورت پروپیگنڈہ بننے سے بچانا چاہیئے ورنہ ادب اور صحافت میں فرق کرنا مشکل ہو جائے گا۔ شاذ کی پوری فکر ٹھیٹ رومانی رہی ہے۔ ان کے ہاں شعر کی بنیادی شرط عشق و معاملات عشق کا اظہار ہے۔ مخدوم نے ان کے فکر وفن کا جو تجزیہ کیا ہے وہ " تراشیدہ " کے فلیپ پران الفاظ میں موجود ہے :
" شاذ ایک درد مند اور پر تکلف فن کار ہے جو نئی نئی خوب صورت مگر بھاری ترکیبیں بنانے کے ساتھ ساتھ سہل اور سہانے الفاظ کو مصرعوں میں جوڑنے کا شائق ہے "
شاذ تمکنت شعر میں شعریت ہی کے قائل تھے۔ ان کی نظمیں اور غزلیں ان کے رومانی لہجے کا شناس نامہ ہیں۔ خلا کی رقاصہ، آخر شب، میرا فن میری زندگی، ایک صبح، نغموں کی مسیحائی جیسی طویل نظمیں شعر سے ان شیفتگی کی مظہر ہیں۔ خوب صورت الفاظ کا بڑے سلیقے سے استعمال خوش آہنگی کی دنیا آباد کر دیتا ہے۔ قاری یا سامع ان کے ساحرانہ اظہار میں کھو بھی جاتا ہے اور پھر جب آنکھ کھلتی ہے تو طلسماتی فضا سے نکل آتا ہے۔
دل صدف میں اترتا ہوں مثل گوہر ناب
میں اپنی چٹکی میں تھامے ہوئے ہوں گل کی نقاب
چھپا تو تخم کی صورت اڑا تو خوشبو ہوں
جھکا تو شاخ کی مانند ا ٹھا تو مثل سحاب
چمن بہ سینہ رہا ہوں ز فیض جذب دروں
ملے سحر کی غزالہ تو ایک بات کہوں
شفق کی سیڑھی پہ ہے تیرا خط پائے حنا
اداس اداس ہے رو ے نگار صبح وطن
گھلا گھلا سا ہے لالہ کی آنکھ کا کجرا
دھواں دھواں سی ہے رخسارہ چمن کی پھبن
تقریباً ساری نظمیں اسی اسلوب میں کہی ہوئی ہیں۔ نظمیں نہایت طویل ہیں جو پیاز کی پرت درپرت کی طرح کھلتی ہی جاتی ہیں اور جن میں 'بین السطور' کے بجائے حسن سطور پر زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ اس دور میں ترقی پسند فکر کا غلغلہ تھا۔ سردار جعفری، کیفی اعظمی، جذبی وغیرہ کے اثرات بڑی حد تک نئے اذہان پر مرتب ہو رہے تھے۔ عزیز قیسی، وحید اختر اور شاذ تمکنت اسی طرح طویل نظمیں کہہ کر اپنے اپنے خزانۂ الفاظ کے ڈھیر لگا رہے تھے۔ شاذ تمکنت کے محبوب شعراﺀ میر، غالب، مومن، مصحفی، داغ، انیس، جوش، فراق، جگر، یگانہ، حسرت موہانی کے ساتھ ساتھ فیض، احمد ندیم قاسمی، عدم، ناصر کاظمی، احمد فراز، اختر الایمان، اختر شیرانی، مصطفی زیدی وغیرہ وغیرہ تھے۔ شاذ نے ان شعراﺀ کی شعری کاوشوں کی داد بھی دی ہے اور ان سے استفادہ بھی کیا ہے۔
ان کی ابتدائی شعری تگ و دو میں انھیں لوگوں نے سردار جعفری کا خوشہ چیں کہنا شروع کیا لیکن شاذ نے اپنی کچھ نظمیں بھیج بھیج کرسردار جعفری سے دریافت کیا تھا کیا یہ ان کی نقل ہیں ؟ سردار جعفری نے 8، اگست 1952ﺀ کو شاذ کو لکھا :
" معلوم ہوتا ہے آپ سے کسی نے مذاق کیا ہے۔ نہ تو آپ کی نظمیں میری نقل ہیں اور نہ میں نے اس کے بارے میں کسی کو لکھا ہے۔ آپ اچھے شعر کہتے ہیں کہتے رہئے۔ لوگ خود خاموش ہو جائیں گے "
شاذ تمکنت کسی تحریک سے وابستہ نہیں تھے۔ وہ ترقی پسندوں ، ارباب ذوق اور جدیدیوں سب سے تعلقات استوار رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی یہ خواہش تھی کہ ہر سطح پر ان کے شعر کو سراہا جائے۔ وہ کسی محدود حلقے میں خود کو اسیر رکھنا نہیں چاہتے تھے۔ وہ غزل کی روایت کا پاس اور زبان و بیان کا پورا خیال رکھتے تھے۔ پابند معرﯼٰ آزاد نظمیں بھی اس سلیقے سے کہا کرتے تھے جس کے لیے وہ مشہور تھے۔
شاذ کا حافظہ بہت اچھا تھا۔ اساتذہ اور اہم شعراﺀ کے بے شمار اشعار انہیں یاد تھے۔ اساتذہ کے بعض اشعار کو انہوں نے نئی معنویت دی۔ ان کی مشہور نظم ہے
" آب و گل "
مجھے یاد پڑتا ہے اک عمر گزری
لگاوٹ کی شبنم میں لہجہ ڈبو کر
کوئی مجھ کو آواز دیتا تھا اکثر
بلادے کی معصومیت کے سہارے
میں آہستہ آہستہ پہنچا یہاں تک
بہ ہر سمت انبوہ آوارگاں تھا
بڑے چاؤ سے میں نے اک اک سے پوچھا
کہو کیا تمھی نے پکارا تھا مجھ کو
کہو کیا تمھی نے پکارا تھا مجھ کو
مگر مجھ سے انبوہ آوارگاں نے
ہراساں ہراساں پریشاں پریشاں
کہا صرف اتنا : نہیں وہ نہیں ہم
ہمیں بھی بلا کر کوئی چھپ گیا ہے
اس نظم کا خمیر دراصل فانی بدایونی کے اس مشہور شعر سے اٹھایا گیا ہے۔
مجھے بلا کے یہاں آپ چھپ گیا ہے کوئی
وہ میہماں ہوں جسے میزباں نہیں ملتا
شاذ تمکنت نے غالب کے مصرعے ناخن پہ قرض اس گرہ نیم باز کا کے چراغ سے چرا غ جلا کر یوں شعر کہا ہے۔
مرے ناخن وفا پر کوئی قرض رہ نہ جائے
جو گرہ پڑی ہے دل میں اسے نیم باز رکھنا
شاذ کو اپنے شعر سے بے پناہ عشق تھا۔ ان کی بڑی خواہش تھی کہ احمد فراز اور ناصر کاظمی کی طرح ان کا کلام بھی مشہور گلوکاروں کے حوالے سے عوام تک پہنچے۔ ان کی مناجات " کب تک مرے مولا " ، " اور اک نغمہ " ، " سب سے مل آؤ تو اک بار مرے دل سے ملو " کافی مقبول ہوئے۔ اپنی غزلوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنی نظموں کی شناخت کے بھی جتن کرتے تھے۔ انہوں نے مسلسل خطوط لکھ کر اختر الایمان سے ان نظموں پر رائے طلب کی اور اختر الایمان تھے کہ ٹال رہے تھے۔ آخر کار 13، ستمبر 1977ﺀ کو شاذ نے انھیں لکھا :
" عید مبارک اختر بھائی میرے۔ پھر آپ کو بور کر رہا ہوں " نیم خواب " کے گرد پوش پر آپ کی رائے ہوگی۔ انشاﺀ اللہ ضرور ہو گی۔ آپ رائے نہیں بھیجیں گے تو خود ہی آپ کے نام سے لکھ کر چھپوا دوں گا۔ پھر نہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی "
دراصل شاذ تمکنت کی یہ کوشش تھی کہ ان کی نظموں پر نظم ہی کے ایک مستندشاعر کی رائے مل جائے تاکہ ان کے شعری مجموعے " نیم خواب " میں وہ شامل کی جا سکے لیکن اختر الایمان نے رائے بھیجنے میں اتنی تاخیر کی کہ شاذ کی کتاب رائے کے بغیر ہی چھپ گئی۔ مگر شاذ نے اس رائے کو اتنی زیادہ اہمیت دی کہ باضابطہ بلاک بنوا کر اس رائے کو چھاپا اور کتاب کے درمیان کہیں جوڑ دی اور اختر الایمان کو خط لکھا ( 22فروری 1978ﺀ )
" عزیز ترین اختر بھائی۔ سلام مسنون۔ میں کچھ مایوس سا ہو چلا تھا کہ آپ کی گراں قدر رائے اور محبت بھری سطریں ملیں۔ اب سنیئے کتاب چھپ گئی ہے۔ دوسو کاپیاں بھی نکل گئیں لیکن ابھی نوسو کاپیاں ہیں جن کی جلد بندی ہونی ہے۔ میں آپ کی رائے کا بلاک بنوا کر کتاب میں شامل کر رہا ہوں۔ اب آپ کو جو کتاب ملے گی اس میں رائے شامل ہو گی البتہ ان دوسو کاپیوں پر ترس آ رہا ہے جو بغیر آپ کی رائے کے یار اغیار تک پہنچ گئیں۔ "
شاذ تمکنت کے قریبی دوست عوض سعید نے شاذ کا خاکہ لکھا کہ :
" وہ خود ہی عاشق تھا اور خود ہی معشوق۔۔۔ وہ بہ یک وقت قلندر بھی تھا اور کافی حد تک دنیا دار بھی۔ زندہ دل بھی تھا اور زود رنج بھی۔ ذاتی تشہیر کا بڑا قائل بھی تھا اور منکر بھی۔ اسے سمجھنے کے لیے اس کی شخصیت کے ان گڈمڈ ہوتے ہوئے سایوں کے ساتھ بہت دور تک جانا ہو گا۔ "
شاذ تمکنت نظم کے بجائے اپنی غزلوں سے پہچانے گئے۔ ان کے اشعار زیادہ تر مترنم بحروں میں ہوا کرتے تھے اور شاذ انھیں پڑھتے بھی تھے لہک لہک کر شعر سنانے کا انداز اس قدر ول کش تھا کہ اس پر ہزار ترنم قربان :
شب و روز جیسے ٹھہر گئے نہ وہ ناز ہے نہ نیاز ہے
ترے ہجر میں یہ پتہ چلا مری عمر کتنی دراز ہے
یہاں بھی شاذ نے حالی کے مشہور شعر سے کتنے سلیقے سے استفادہ کیا ہے
بے قراری تھی سب امید ملاقات کے ساتھ
اب وہ اگلی سی درازی شب ہجراں میں نہیں
بلکہ حالی کی لکیر کے بالمقابل بڑی لکیر کھینچنے کی کوشش کی ہے۔
شاذ کی غزل اپنی تمام تر غنائیت کی وجہ سے عوام و خواص میں یکساں مقبول تھی۔ ہندو پاک میں ان کی تخلیقات معیاری رسائل کی زینت بنتی تھیں۔ ان کے بیشتر اشعار ضرب الامثال کی طرح مشہور ہیں :
مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے
آگے آگے کوئی مشعل سی لیے چلتا تھا
ہائے اس شخص کا کیا نام تھا پوچھا بھی نہیں
خیال آتے ہی کل شب تجھے بھلانے کا
چراغ بجھ گیا جیسے مرے سرہانے کا
زنجیر گل و لالہ چپکے سے ہلا دینا
اے باد بہار اپنی آمد کا پتہ دینا
ایک رات آ پ نے امید یہ کیا رکھا ہے
آج تک ہم نے چراغوں کو جلا رکھا ہے
ان تھکے ہارے پرندوں کا خیال آتا ہے
جو کسی بام پہ نا چار اتر پڑتے ہیں
وہ نیاز و ناز کے مرحلے نگہ و سخن سے چلے گئے
ترے رنگ و بو کے وہ قافلے ترے پیرہن سے چلے گئے
شاذ کے مجموعے " تراشیدہ " ، " نیم خواب " ، " ورق انتخاب " ، " بیاض شام " جب تک ہیں شاذ کبھی بھلائے نہ جا سکیں گے۔ شاذ کی نثر بھی ان کی نظم و غزل کی طرح گل کار ہوا کرتی تھی۔ انہوں نے کئی کتابوں پر دلچسپ اور مدلل تبصرے بھی کیئے۔ کاش وہ تبصرے بھی کتابی صورت میں شائع ہو جاتے۔ شاذ نے اپنے محبوب شاعر مخدوم محی الدین کی حیات اور کارنامے کو اپنی پی ایچ ڈی کا موضوع بنایا اور ریسر چ کا حق ادا کیا 31۔ جنوری 1933ﺀ کو حیدرآباد کے افق پر طلاع ہونے والا یہ سورج 18۔ اگست 1985 کو یہ شکوہ کرتا ہوا ڈوب گیا۔
گھر نے سمجھا نہ اسے اہل وطن نے جانا
میرا گھر اور ہی ہے میرا وطن اور ہی ہے
یہ دراصل ایک فن کار کی نا آسودگی ہے۔ ورنہ شاذ تمکنت کو ہر سطح پر جو شہرت و عزت ملی وہ بہت کم شاعروں کے حصے میں آتی ہے۔ دکن کا یہ انمول رتن لکھنؤ کے مجاز بھوپال کے دشینت کمار اور دہلی کے نریش کمار شاد کے پیچھے پیچھے اس سفر پر نکل گیا جہاں سے لوٹ کر کوئی نہیں آتا۔
منتخب کلام:
خوار و رسوا تھے یہاں اہل سخن پہلے بھی
ایسا ہی کچھ تھا زمانے کا چلن ، پہلے بھی
مدتوں بعد تجھے دیکھ کے یاد آتا ہے
میں نے سیکھا تھا لہو رونے کا فن پہلے بھی
ہم نے بھی پایا یہاں خلعت سنگ و دشنام
وضعدار ایسے ہی تھے اہل وطن پہلے بھی
دلنواز آج بھی ہے نیم نگاہی تیری
دل شکن تھا ترا بے ساختہ پن پہلے بھی
چاپ خوابوں کی سنی تھی، کوئی آیا نہ گیا
سنسناتا تھا مری نیندوں کا بن پہلے بھی
آج اس طرح ملا تو، کہ لہو جاگ اٹھا
یوں تو آتی رہی خوشبوئے بدن پہلے بھی
شاذ ! وہ جانے گا ان آنکھوں میں کیا کیا کچھ ہے
جس نے دیکھی ہو، ان آنکھوں کی تھکن پہلے بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں تو چپ تھا مگر اس نے بھی سنانے نہ دیا
غم دنیا کا کوئی ذکر تک آنے نہ دیا
اس کا زہر آبۂ پیکر ہے مری رگ رگ میں
اس کی یادوں نے مگر ہاتھ لگانے نہ دیا
اس نے دوری کی بھی حد کھینچ رکھی ہے گویا
کچھ خیالات سے آگے مجھے جانے نہ دیا
بادبان اپنے سفینے کا ذرا سی لیتے
وقت اتنا بھی زمانے کی ہوا نے نہ دیا
وہی انعام ! زمانہ سے جسے ملنا تھا
لوگ معصوم ہیں، کہتے ہیں خدا نے نہ دیا
کوئی فریاد کرے گونج مرے دل سے اٹھے
موقع درد کبھی ہاتھ سے جانے نہ دیا
شاذ ! اک درد سے سو درد کے رشتے نکلے
کن مصائب نے اسے جی سے ﺑھلانے نہ دیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وفا کا ذکر ہی کیا ہے جفا بھی راس آئے
وہ مسکرائے تو جرم خطا بھی راس ائے
وطن میں رہتے ہم یہ شرف ہی کیا کم ہے
یہ کیا ضرور کہ آب و ہوا بھی راس آئے
ہتھیلیاں ہیں تری لوحِ نور کی مانند
خدا کرے تجھے رنگ حنا بھی راس آئے
دوا تو خیر ہزاروں کو راس آئے گی
مزہ تو جینے کا جب ہے شفا بھی راس آئے
تو پھر یہ آدمی خود کو خدا سمجھنے لگے
اگر یہ عمرِ گریزاں ذرا بھی راس آئے
اب اس قدر بھی نہ کر جستجوئے آبِ بقا
گل ہنر ہے تو باد فنا بھی راس آئے
یہ ترا رنگ سخن ترا بانکپن اے شاذ
کہ شعر راس تو آئے انا بھی راس آئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شب وعدہ کہہ گئی ہے شب غم دراز رکھنا
اسے میں بھی راز رکھوں اسے تم بھی راز رکھنا
یہ ہے خار خار وادی یوں ہی زخم زخم چلنا
یہ ہے پتھروں کی بستی یوں ہی دل گداز رکھنا
ہمہ تن جنوں ہوں پھر بھی رہے کچھ تو پردہ داری
کہ برا نہیں خرد سے کوئی ساز باز رکھنا
مرے ناخن وفا پر کوئی قرض رہ نہ جائے
ترے دل میں جو گرہ ہے اسے نیم باز رکھنا
وہی لے جو ان سنی بھی وہی شاذ نغمگی بھی
یہ حساب خامشی بھی مرے نے نواز رکھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم زاد
وہ اک شخص جس کی شباہت سے مجھ کو
بہت خوار و شرمندہ ہونا پڑا تھا
قبا روح کی ملگجی ہو گئی تھی
کئی بار دامن کو دھونا پڑا تھا
وہ مجھ جیسی آنکھیں جبیں ہونٹ ابرو
کہ باقی نہ تھا کچھ بھی فرق من و تو
وہی چال آواز قد رنگ مدھم
وہی طرز گفتار ٹھہراؤ کم کم
خدا جانے کیا کیا مشاغل تھے اس کے
مرے پاس لوگ آئے آ آ کے لوٹے
کئی مجھ سے الجھے کئی مجھ سے جھگڑے
میں روتا رہا بے گناہی کا رونا
مرے جرم پر لوگ تھے قہقہہ زن
نہ کام آیا اپنی تباہی کا رونا
وہ غ مر گیا کیا غضب ہے
اسے دفن کر آئے لوگوں کو دیکھو
میں کم بخت نظروں سے اوجھل ہی کب تھا
یہ کیا کر دیا ہائے لوگوں کو دیکھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خوف کا صحرا
کیا ہوا شوق فضول
کیا ہوئی جرات رندانہ مری
مجھ پہ کیوں ہنستی ہے تعمیر صنم خانہ مری
پھر کوئی باد جنوں تیز کرے
آگہی ہے کہ چراغوں کو جلاتی ہی چلی جاتی ہے
دور تک خوف کا صحرا نظر آتا ہے مجھے
اور اب سوچتا ہوں فکر کی اس منزل میں
عشق کیوں عقل کی دیوار سے سر ٹکرا کر
اپنے ماتھے سے لہو پونچھ کے ہنس پڑتا ہے
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں