اشوک ساحل - انسانیت نواز منکسر المزاج عوامی شاعر - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2020/08/24

اشوک ساحل - انسانیت نواز منکسر المزاج عوامی شاعر


اب اس سے پہلے کہ دنیا سے میں گزر جاؤں
میں چاہتا ہوں کوئی نیک کام کر جاؤں

اس مقبول عام شعر کے خالق، اشوک ساحل آج 24/اگست 2020 کو دنیا سے وداع ہو گئے۔ ان کی عمر 65 سال تھی اور بہار کے شہر مظفرنگر سے ان کا تعلق تھا۔ وہ گذشتہ دو برسوں سے گردوں کی بیماری کا شکار تھے۔
اشوک ساحل اپنے عام فہم مگر پرفکر اشعار سے مشاعروں میں جان ڈال دیتے تھے اور سامعین کی توجہ حاصل کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف تھے، ان کے مشہور اشعار ہیں:

اردو کے چند لفظ ہیں جب سے زبان پر
تہذیب مہرباں ہے میرے خاندان پر

دل کی بستی میں اجالا ہی اجالا ہوتا
کاش تم نے بھی کسی درد کو پالا ہوتا

بلندیوں پر پہنچنا کمال نہیں
بلندیوں پر ٹھہرنا کمال ہوتا ہے

عوام کے موضوعات اور ان کے زمینی مسائل سے اشوک ساحل کی شاعری مزین تھی اور اسی بنیاد پر انہوں نے مشاعروں میں بےپناہ داد سمیٹی۔
جیسے کہ ان کی ایک مشہور غزل کے یہ تین اشعار پڑھیے:

ضرورتیں میری غیرت پہ طنز کرتی ہیں
مرے ضمیر تجھے مار دوں کہ مر جاؤں

بہت غرور ہے بچوں کو میری ہمت پر
میں سر جھکائے ہوئے کیسے آج گھر جاؤں

مرے عزیز جہاں مجھ سے مل نہ سکتے ہوں
تو کیوں نہ ایسی بلندی سے خود اتر جاؤں

اردو دنیا کی وہ شاٸستہ اور شیریں زبان ہے جس نے معاشرے کے ہر طبقے کو نہ صرف متاثر کیا ہے بلکہ معاشرے کی تعمیر اور ترقی میں اہم کردار بھی ادإ کیا ہے۔
اردو - وہ زبان ہے جسے ہر مذہب کے لوگوں نے اپنایا ہے، اس کے گیسو سنوارے ہیں اور ہر زمانے میں اسے پروان چڑھانے میں اپنا حق ادإ کیا ہے۔
ہندوستان میں ہندو اردو شاعر کے طور پر مشہور اشوک ساحل نے بھی اردو کے سیکولر اور روادارانہ مزاج کی تبلیغ کرتے ہوئے کہا ہے:
میں تمہیں اپنے اصولوں کی قسم دیتا ہوں
مجھ کو مذہب کے ترازو میں نہ تولا جائے
میں نے انسان ہی رہنے کی قسم کھائی ہے
مجھ کو ہندو یا مسلمان نہ سمجھا جائے

ملک کی تقسیم کے بعد اشوک ساحل کا خاندان پاکستانی پنجاب کے علاقے بہاول پور سے بہار کے شہر مظفرنگر میں آ کر بس گیا تھا۔ اشوک ساحل کو اپنی ابتدائی زندگی میں کافی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا۔ آہستہ آہستہ اپنی منفرد عوامی شاعری کے ذریعے انہوں نے ملک و بیرون ملک اپنی نمایاں شناخت حاصل کی۔ حال ہی میں فوت ہوئے مشاعروں کے نمائندہ شاعر راحت اندوری سے اشوک ساحل کا روحانی تعلق تھا، راحت اندوری جب بھی مظفرنگر آتے تو انہی کے پاس قیام کرتے تھے۔ ان کے انتقال کی خبر سن کر اشوک ساحل شدید صدمے کا شکار ہو گئے تھے۔

انسانیت اور کسر نفسی اشوک ساحل کے دل و دماغ اور مزاج و شاعری میں رچی بسی تھی۔ سیاست یا چاپلوسی سے دور رہے ان کے قلم نے ہر طبقے کو انسانیت کا پیغام یاد دلایا ہے۔ انہی کے اشعار ہیں:
پرندہ ہو چرندہ ہو کہ انساں
محبت ہی کی بارش چاہتا ہے
انا مجبور کر دیتی ہے ورنہ
کسی سے کون رنجش چاہتا ہے

عام آدمی کی حمایت اور اس کے دکھ و درد کا بیاں اشوک ساحل کی شاعری کی شان رہا ہے۔۔۔ وہ کہتے ہیں:
صرف لفظوں کی سجاوٹ نہیں کرتا ساحل
اس کے ہر شعر میں پیغام چھپا ہوتا ہے
اس دنیا میں کون سمجھتا ہے کسی اور کا دکھ
ریل کا وزن تو پٹری کو پتا ہوتا ہے

شاعر اور اس کے فن کا مختصر تعارف (پانچ منٹ کی ویڈیو)
آواز اور پیش کش: مکرم نیاز


1 تبصرہ: