اکرام باگ (پیدائش: 1948ء)
برصغیر کے جدید لب و لہجہ کے ممتاز افسانہ نگار ڈاکٹر اکرام باگ 2/جولائی 2020 کو انتقال کر گئے۔
اکرام باگ اپنی ذہانت ، مطالعہ اور عصری علوم و فنون لطیفہ پر دسترس کے باعث بہترین افسانے لکھنے والوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان کے افسانے نہ صرف قاری کی پسند بن گئے تھے بلکہ تنقید نگاروں کی میزان پر بھی کھرے اترتے تھے۔
اکرام باگ کا تعلق گلبرگہ کی بستی بسواکلیان سے تھا۔ انہوں نے اس بستی کو نہ صرف اردو دنیا سے متعارف کروایا بلکہ ان کی حیات ہی میں اس علاقے کو اکرام باگ کے شہر سے جانا جانے لگا تھا۔
اکرام باگ کو حمید سہروردی ، م. ناگ ، علی امام نقوی اور اس دور کے دیگر افسانہ نگاروں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے جدیدیت اور علامتوں کے سائے تلے اپنی ادبی حیثیت کو منوایا ہے۔ ان کے اکثر افسانوں میں کرب آئینہ بن جاتا تھا۔ وہ استعارہ، علامت اور تشبیہات کے عمدہ استعمال سے واقف تو تھے ہی اپنے خوبصورت بیانیے کی بدولت بھی لوگوں کے دلوں کو موہ لیتے تھے۔
اکرام باگ کا افسانوی مجموعہ "اندوختہ" پی۔ڈی۔ایف فائل (صفحات: 224) کے ذریعے پیش خدمت ہے۔
اس مجموعے میں درج ذیل 27 افسانے شامل ہیں:
توفیق، اندوختہ، زوالِ رفت میں پچھلی دھند، چُپی، تصھیح، دمِ افعی، آتشِ عنقا، حیات، مدعا تہہِ سنگ، برطرف فاصلے، رخش پا، عکسِ فنا، کابوس، تقطیب، تقلب، اقلیما سے پرے ہو، ادھورا پہیہ، آبگینہ، اندیشہ، کوچ، پڑاؤ، اسیرِ ہندسہ، ہندسۂ عبث، مفلوج، تقیہ بردار، جے سی بی، اُس گلی سے۔
اکرام باگ کے افسانوی مجموعہ "اندوختہ" کا آخری افسانہ "اُس گلی سے" ایک دلچسپ اور یادگار افسانہ ہے۔ اسی افسانے کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
تھوڑے وقفہ کے بعد پنڈت نے اونچی آواز میں کہا:
"اپنے لڑکے کی آنکھوں پر پہرہ لگاؤ۔ ایسا نہ ہو کہ۔۔۔"
اسی لحظہ ہلکے سے چکر کے ساتھ اونگھ کا احساس ہوا۔ اس اونگھ کے بطن سے ایک ہیولی ابھرتا محسوس ہوا۔۔۔ کامنی!
اس دن اپنے متعینہ انتظاری وقفہ میں میں نے حیات بابا سے اس مسلسل اونگھ کا علاج چاہا۔ انہوں نے کہا:
"تسخیر ہیولیٰ، ہمزاد ہو جائے گا۔ اس عمل سے دور رہ۔ ربط میں ضبط کا خدشہ ہے۔"
"کون ہم زاد؟" میں نے پوچھا۔
"اپنی پسلی سے انجان ہے؟" انہوں نے جواب دیا۔
گوپی چند نارنگ لکھتے ہیں ۔۔۔اکرام باگ اردو افسانے کے ایک تاریخی موڑ کی یاد دلاتے ہیں، وہ ایک کاروان کے ساتھ بھی تھے اور نہیں بھی تھے۔ ان کی فنکاری ان کی اپنی فن کاری ہے۔ بیانیہ کی بناوٹ، کرداروں کے اندون میں جھانکنا اور نفسیاتی گرہوں کی ہلکی گہری اشاریت ان کی خاص ذہنی نہج بن گئی۔ ادبی مراکز سے دوری اور بھیڑ سے الگ ہونے کی خواہش اور اختصار پسندی ان کی تحریروں میں طرح طرح سے ظاہر ہوتی رہی ہے، لیکن غور سے دیکھا جائے تو اپنے کرداروں کی ساخت، قصباتی جزئیات اور دھندلی دھندلی معاشرتی فضا سے جو نقش ابھرتا ہے، اردو افسانے میں وہی ان کا دستخط بن جاتا ہے جس سے وہ الگ پہچانے جا سکتے ہیں۔
وارث علوی لکھتے ہیں ۔۔۔اردو ادب میں جب جدید افسانے کی آواز بلند ہوئی اس وقت لکھنے والوں میں جو نئے اور جدید افسانہ نگار آئے ان میں اکرام باگ کا نام بہت نمایاں تھا۔ شب خون میں وہ مسلسل چھپتے رہے۔ ایک خاص قسم کا پراسرار افسانہ ان کے قلم سے سامنے آیا۔ پڑھ کر حیرانی بھی ہوتی، اس کی کوئی معنویت قاری کے ذہن پر آشکار نہیں ہو پاتی لیکن اکرام باگ اسلوب، واقعہ نگاری اور وہ عناصر جو افسانے کے دلچسپ بناتے ہیں اس میں بھرپور انداز سے ملتے تھے۔
شمس الرحمن فاروقی فرماتے ہیں ۔۔۔اکرام باگ کے افسانوں کی سب سے نمایاں خصوصیت ان کی کچھ پراسرار، کچھ خوف آگیں فضا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ پڑھنے والا ہماری دنیا میں موجود ہوتے ہوئے بھی کسی ایسی جہت میں گامزن ہے جو اسے روز مرہ کی دنیا سے الگ لے جانے کے لیے کوشاں ہے۔ عام دنیا کی اشیا اور مقامات اور کوائف بھی ان افسانوں میں کچھ سرمئی، تاریک ، گرد آلود رنگ میں رنگے نظر آتے ہیں۔
اکرام باگ کی نثر اپنے قاری کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت نہیں کرتی۔ وہ بظاہر سادہ لیکن یہ باطن پیچیدہ نثر لکھتے ہیں۔ پڑھنے والا اگر متوجہ نہ ہو تو اس نثر کی خوبیاں اس کی نگاہوں سے اوجھل رہ جاتی ہیں۔ ان کی نثر بےحد گھٹی ہوئی اور ان کا ایک ایک لفظ دیوار میں چنی ہوئی اینٹ کا حکم رکھتا ہے کہ اگر ایک اینٹ بھی نکال دی جائے تو دیوار کی کلیت مجروح ہو جائے۔ چھوٹے، گھٹے ہوئے جملے، اثر آفرینی کی واضح اور کھلی ہوئی کوشش سے بالکل مبرا۔ جملوں میں سحر کی کی سی قوت ہے جو آہستہ آہستہ قاری پر مستولی ہو جاتی ہے۔
اکرام باگ کے افسانوں میں اشیا کے، احساسات کے ، زندگی کے رائیگاں جانے کا تصور حاوی ہے اور اس کے ساتھ ان چیزوں کے ہو جانے کی تمنا، جو ہو نہیں سکتی۔ پھر ان چیزوں کی جگہ نقلی چیزیں رکھ کر حقیقت کو بہلانے کی کوشش نظر آتی ہے۔ ("اندوختہ" کے متکلم وحید نے اپنی لڑکی کا نام اس لڑکی کے نام پر رکھا ہے جو اس کی معشوقہ نہ بن سکی اور خود اس لڑکی نے اپنے بچے کا نام افسانے کے متکلم کے نام پر رکھا ہے)۔ لیکن یہ سب زیاں کیوں ہے۔ چابی ہوئی چیزیں کیوں قوت سے فعل میں نہیں آتیں؟ ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لیے اکرام باگ قاری کو تنہا چھوڑ دیتے ہیں۔ وہ جھوٹے حل پیش کر کے قاری کو دھوکہ نہیں دینا چاہتے۔
"حيات" نامی افسانے میں "حيات" بمعنی زندگی بھی ہے اور افسانہ نگار کے اس کردار کے بھی معنی میں ہے جو افسانہ نگار سے کھو گیا ہے، یا جدا ہو گیا ہے۔ دونوں صورتوں میں "حيات" کے معنی تو معلوم ہو سکتے ہیں لیکن کیفیت نامعلوم رہتی ہے۔
اکرام باگ کے افسانے بنیادی طور پر ذاتی المیے کی داستانیں ہیں۔ انھوں نے تجرید اور شدت تاثر سے بھرے ہوئے افسانے لکھے ہیں۔ ان کے افسانوں میں علامت کے پردے میں تمام تر رعنائی اور رنگینی کے ساتھ باہر کی روشنی اور اندر کی روشنی کو یک جا چھان کر نئے رنگوں میں پیش کرتے ہیں۔
اکرام باگ کے افسانوں کا مجموعی تاثر زیاں اور گزران کے ماتم کا ہے۔ دنیا کارگاهِ عمل تو ہے لیکن اس کے عمل زیادہ تر زیاں ، گمشدگی کی طرف لے جاتے ہیں۔ انسان اپنی تمام ذہنی اور علمی قوتوں کے باوجود دنیا میں پوری طرح قائم نہیں ہوتا۔ اس کے دوست اور چاہنے والے ہی اس کا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں۔
ان کی تحریروں نے جدیدیت اور "شب خون" کو اعتبار بخشا۔ اگرچہ میں ان کے بارے میں کبھی کچھ لکھ نہ سکا لیکن جدید ادب کی جدوجہد ان کے بغیر کامیاب نہ ہوتی۔
کتاب "اندوختہ - افسانے از: اکرام باگ" پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجیے۔
تعداد صفحات: 224
pdf فائل سائز: 6MB
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
Andokhta by Ikram Baag.pdf
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں