یہ کھچڑی ہے - انشائیہ از مکرم نیاز - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2020/05/16

یہ کھچڑی ہے - انشائیہ از مکرم نیاز


انشائیہ: یہ کھچڑی ہے
انشائیہ نگار: مکرم نیاز ©

بچو! یہ کھچڑی ہے!
یہ ایک اسپیشل قسم کا مقبول عام کھانا ہے جو دال اور چاول ملا کر پکاتے ہیں۔ اب دال مسور بھی ہو سکتی ہے، تور بھی یا مونگ بھی۔ یہ پکانے والی کے میاں کی جیب پر منحصر ہے۔ جو دال سستی ہے، کھچڑی اسی کی بنے گی یعنی یہ سارا کھیل جیب کا ہے۔
کھچڑی، حیدرآبادی ناشتے کی میز کی آن بان شان ہے۔ بریانی، بگھارا، تہاری، قبولی کے درمیان یہ اپنی انفرادیت یوں برقرار رکھتی ہے کہ اسے کھانے والا بغیر کسی سالن کے، محض اس کی خوشبو پر نثار ہو کر والہانہ ٹوٹ پڑتا ہے، بقول شاعر ع
کیا کسی پکوان میں ہوگا جو مزا کھچڑی میں ہے
ویسے اگر تھوڑا سا گھی اوپر چھڑک دیا جائے تو سونے پہ سہاگا، سب رال ٹپکاتے بول اٹھیں کہ ایسی کھچڑی بھی یارب بس حیدرآباد میں کھائی جائے ہے۔
بڑی بوڑھیاں بوجہ خار کھاتی ہیں جو کھچڑی کو کاہل عورت کی نشانی کہتی ہیں۔ اور کوئی کوئی کمبخت تو اسے بیماروں کے پرہیزی کھانے کا نام دے جاتا ہے۔ یہ سب ان بدذوقوں کا دلی بغض ہے۔ ورنہ کہاں راجہ کھچڑی اور کہاں تیلی خشکہ؟

کھچڑی کے ساتھ ایک محاورہ بھی جڑا ہے۔ محاورہ بولے تو کہاوت، proverb
کھچڑی کے ہیں چار یار
کھٹا، قیمہ، پاپڑ، اچار
کھٹا، املی کے کھٹے پانی نما سالن کو بولتے ہیں، جس میں کتری ہوئی پیاز اور زیرہ مع رائی بگھار کر ڈال دیا جاتا ہے۔ ویسے یہ "کھٹا" تقریباً ہر حیدرآبادی سالن میں پڑتا ہے۔ اسی سبب بیرون ملک حیدرآبادیوں کو "کھٹے" کے لقبِ مبارک سے سرفراز کیا جاتا ہے، ویسے ہی جیسے ہمارے پڑوسی پاکستانی "ناڑے" کا خطاب جھیلتے ہیں۔

قیمہ عموماً "بڑے" کا بنتا ہے کیونکہ یہ حیدرآباد کے مسلمانوں میں "مسلمانیت" کی سب سے بڑی دلیل مانی جاتی ہے۔ بڑا گوشت سستا پڑتا ہے مگر دلیلِ اسلام مضبوط ہوتی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ یہ جو گرم مزاجی اس قوم میں پائی جاتی ہے وہ اسی سستے مگر گرم گوشت کی کارستانی ہے۔ لیکن سیانوں کا کیا ہے، وہ تو بیس لاکھ کروڑ کو یوں کہہ دیتے ہیں جیسے بیس ہزار! لہذا بچو، تم سیانوں کو باتوں کو دل پر نہ لینا۔

ہاں تو ہم کہہ رہے تھے کہ کھچڑی کے ساتھ ایک محاورہ نہیں بلکہ کئی محاورے جڑے ہیں۔ یہ جو ہمارے بی۔بی۔سی والے عابدی صاحب ہیں ناں، وہ ان دنوں لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھا کر اپنی ٹائم لائن کے قارئین سے محاوروں کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ روزمرہ کے لاتعداد الفاظ برت لیے، مثلاً: آنکھ، دل، زبان، کان، ہاتھ، خون، آسمان، بات، آگ، خاک ۔۔۔
مگر مجال ہے صاحب، جو کسی خوراک یا ڈش کا نام لیا ہو۔ خیر، یہ ان کی عمر کا تقاضا ہے، تم پریشان نہ ہونا، ہم ہیں ناں!

عابدی صاحب کی ڈاڑھی نہیں ہے ورنہ ہم "کھچڑی ڈاڑھی" محاورہ کی عملی تصویر پیش کر دیتے۔ سر کے بال سارے سفید ہو گئے ہوں، مگر دانشور حضرات ڈاڑھی کھچڑی رکھتے ہیں یعنی سفید اور سیاہ بالوں کا مکسچر۔ تاکہ ان کے افکارِ پریشاں کی جوان العمری ثابت ہو سکے۔
بیوی کے میکے میں سسرال والوں کے خلاف اور شوہر کے خاندان میں اس کی سسرال کے خلاف ہمیشہ کھچڑی پکتی ہے۔ یہ خفیہ چرچا یا کھسر پھسر چپکے چپکے ہوتی ہے جس کے نتیجے میں ایک بند کمرے میں رات کی ہولناک خاموشی کے دوران خوفناک جھگڑا برپا ہوتا ہے اور پڑوس کے گھر سے کوئی بڑے میاں غلام علی کی گائی غزل اونچے سروں میں بجوا دیتے ہیں:
چپکے چپکے رات دن آنسو بہانا یاد ہے

سب جانتے ہیں کہ جب آدمی پچاس کی عمر سے آگے چلا جائے تو اس کے بال کھچڑی ہو جاتے ہیں۔ کوئی مضائقہ نہیں اگر سفید رنگ کو مہندی یا اخروٹ رنگ سے رنگ لیا جائے لیکن اگر کسی جواں مرد نے طیشِ جوانی میں سفید بالوں کو بھی سیاہ رنگنے کی کوشش کی تو دیکھنے والے پیٹھ پیچھے ایسا محاورہ کستے ہیں جس کا کھچڑی سے کوئی لینا دینا نہیں، یعنی:
بڈھا گھوڑا لال لگام!

بالی ووڈ میں محمود، اسرانی یا جانی لیور ہیں تو ہمارے حیدرآباد میں بھی ایک عدد "گلو دادا" پائے جاتے ہیں جن کا ڈنکا سوشل میڈیا پر بجتا ہے۔ ایک بار ان کا آنکڑہ ایک فربہ اندام حسینہ سے لڑ گیا۔ "شاداب" میں لذتِ کام و دہن کی پہلی دعوت کے تگڑے بل کی ادائیگی کو کاؤنٹر پر اکیلے جوجھ کر جب وہ یادگاری تحفہ کی خاطر، معشوقہ کے ہمراہ مالابار گولڈ پہنچے تو سیلزمین نے گلے کے زیورات کے سیٹ نکالنے شروع کیے۔ گلو دادا بوکھلا گئے، کلائی کی طرف اشارہ کرکے بتایا: چوڑیاں!
سیلزمین نے پوچھا: میڈم کیا سائز ہے؟ شعلۂ جوالہ نے اٹھلا کر اپنی لحیم شحیم کہنی کا سارا بوجھ گلو دادا کے کندھے پر ٹکاتے ہوئے نزاکت سے کہا: "ہوگا یہی کوئی دو-دو آنی"۔
یہ سنتے ہی گلو دادا کی آنکھیں پھیلیں، ان کا مخصوص تکیہ کلام منہ سے نکلا: آئیں!
اس کے بعد یہ کہہ کر کھڑے کھڑے کوما میں چلے گئے:
"کھچڑی کھاتے ہی پہنچا اترا"۔

بچو! یہ بھی کھچڑی سے جڑا ایک محاورہ ہے۔ اس کا مطلب جاننے کے لیے تمہیں لغت سے رجوع کرنا چاہیے۔ ہر چیز فری میں بتا دی جائے تو محنت مشقت کون کرے گا؟ بڑا آدمی کون بنے گا؟
خیر، آج کے لیے اتنا کافی ہے۔ روزہ تو کھول لیا ہوگا۔
یہ لو اب کھچڑی کھاؤ اور جان بناؤ!!

*****
یہ تحریر یہاں بھی :
مکرم نیاز فیس بک ٹائم لائن

1 تبصرہ: