قیصر تمکین (اصل نام: شریف احمد علوی) (پ: 1938 ، وفات: 25/نومبر 2009)
ہندی ، سنسکرت ، فارسی ، عربی ، فرانسیسی ، انگریزی اور اردو پر عبور رکھنے والے نامور ادیب ، نقاد اور صحافی کا تعلق لکھنؤ سے تھا جو بعد میں برطانیہ میں جا بسے۔
یوروپ میں اردو لکھنے والوں کی نظریں اپنی رہنمائی کے لئے قیصر تمکین کے تخلیق کردہ ادب پر اٹھتی رہی ہیں۔ ان کے علمی، ادبی، تنقیدی و تحقیقی مضامین بھی بیسویں صدی کی آٹھویں اور نویں دہائی میں روزنامہ "سیاست" حیدرآباد کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
مختلف مگر اہم علمی و ادبی موضوعات پر ان کے 15 مضامین کا ایک موقر مجموعہ کتابی شکل میں "اے دانشِ حاضر" کے زیرعنوان 2008 میں اشاعت پذیر ہوا۔
اس مجموعہ میں شامل مضامین کے عنوانات ہیں:
فکشن کیوں، ایک ادبی منشور، تہذیب عالی کا سراب، فکشن کی اہمیت اور ضرورت، مغرب میں اردو فکشن کا رجحان، فسانہ و شعر - ایک آویزش؟ ، ہم کیوں لکھتے ہیں؟ ، روئے ادب سوءِ ادب، ادب میں دیانتداری کا مسئلہ، ادبی تنقید میں احتساب کی ضرورت، کچھ دانشور، کچھ دانشوری، فکشن - اہمیت کا مسئلہ، تخلیق و تضحیک، خلق در ہر گوشۂ افسانہ خواندزتو، صاحبِ صاحبقراں - عاشور کاظمی۔
اردو ادب کے طلبہ و محققین کے لیے یہ نہایت اہم اور مفید کتاب پی۔ڈی۔ایف فائل (صفحات: 157) کی شکل میں پیش خدمت ہے۔
مضمون "فکشن کیوں؟" سے ایک اقتباس ۔۔۔فکشن پر لکھنے والوں کی تعداد ہمارے ادب میں زیادہ نہیں ہے۔ اگر بہت توجہ سے دیکھا جائے تب بھی دس بارہ ہی معتبر نام ملیں گے، ان میں بھی کوئی ایسا لکھنے والا نہیں ہے جس نے تحقیق اور غور و فکر کے بعد یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہو کہ ناول و افسانہ وغیرہ کی ادب اور سماج میں کیا اہمیت ہے اور یہ کہ اگر کسی معاشرے میں فکشن نہ ہو تو اس کی تہذیبی تاریخ کس حد تک نامکمل سمجھی جائے گی؟
اس کا سبب بظاہر یہ ہے کہ ہمارے ادب میں زیادہ زور شاعری پر دیا جاتا رہا ہے اور مستند لکھنے والوں نے بھی فکشن کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی ہے۔ مگر ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ انگریزی میں بیسویں صدی کا صاحب طرز شاعر ایزرا پاونڈ [Ezra Pound] زور دیتا ہے کہ شاعروں کو چاہئے کہ وہ فلابیئر [Flaubert] کی نثر کے صوتی آہنگ اور دلنشینی سے اچھی طرح واقفیت حاصل کریں۔
فکشن کی اہمیت کے بارے میں بہت جستجو کے بعد صرف پریم چند کا ایک قول ملتا ہے جہاں انھوں نے کہا ہے کہ کہانی کا سب سے بڑا مقصد تفریح ہے لیکن یہ وہ ادبی تفریح ہے جس سے ہمارے ذہنی اساسات کو تحریک ملتی ہے۔ ہم میں صداقت، بے لوث خدمت، انصاف اور نیکی کا جو غیرلوث عنصر ہے وہ جاگ اٹھے۔
ذاتی دلچسپی، فطری ذوق اور وسیع مطالعے کے لحاظ سے پہلی صف میں ممتاز شیریں، حسن عسکری اور وقار عظیم کے نام آتے ہیں، ان کے بعد زیادہ نمایاں نام اور کام گوپی چند نارنگ کا ہے بعد میں شہزاد منظر، وارث علوی اور شمس الرحمن فاروقی نے بھی فکشن کے بارے میں خوب لکھا ہے۔
فکشن میں چونکہ فن ناول نگاری کا بھی حصہ ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ علی عباس حسینی اور احسن فاروقی نے بھی اس موضوع پر خاصی خدمت کی ہے۔ تھوڑے دنوں ڈاکر محمد حسن نے بھی اردو افسانے پر اظہار خیال میں اچھا خاصا نام کمایا تھا۔ آج کل علی احمد فاطمی اور مرزا حامد بیگ اس بارے میں خاصی وسیع النظری سے اور بہت ہی سوچ سمجھ کر کام کر رہے ہیں۔
مضمون "ادب میں دیانت داری کا مسئلہ" سے ایک اقتباس ۔۔۔ادب میں دیانتداری کا مسئلہ ہر جگہ ہر زمانے میں اور ہمیشہ اٹھتا رہا ہے۔ اس باب میں نظریاتی بجث بھی ہوتی ہے۔ تنقید نگاری کے بلند ترین اصولوں کے حوالے بھی دیے جاتے ہیں اور فرد اور سماج کے حقوق پر روشنی بھی ڈالی جاتی ہے۔ لیکن وہی حضرات جو نقد و نظر کے فرائض اور ادب میں منصفی کے سوال پر طول طویل مقالے لکھتے ہیں۔ بیشتر اوقات خود ان اصولوں سے کلی طور پر بےنیاز نظر آتے ہیں۔ گویا جن اصولوں کے پروانہ ہائے راہداری لے کر وہ بزم ادب میں داخل ہوتے ہیں ان کو خود ہی پرزے پرزے کر کے پھینکنے میں بھی آگے آگے دکھائی دیتے ہیں۔
یہاں پر ایک مجبوری کا احساس بھی ضروری ہے۔ ادب کہیں نامعلوم جزیروں یا آدرش وادی دنیاؤں میں نہیں پرورش پاتا ہے۔ ادیب اور شاعر بھی ہماری روزمرہ کی زندگی کا حصہ ہوتے ہیں اور تمام حالات و واقعات سے اپنے ہم نفسوں کی طرح متاثر ہوتے ہیں۔ یہی بات ناقدوں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے چنانچہ سماج کے دوسرے افراد کی طرح ان لوگوں کو بھی دوستی، وضعداری اور مروت کا خیال رہتا ہے۔ یہ بات نئے ادیبوں کی ہمت افزائی کے لیے تو قابل تعریف ہے بلکہ ضروری بھی۔ لیکن بوڑھے کھوسٹ، وظیفہ یاب اور خضاب آلودہ ادیبوں، شاعروں کی دوسرے اور تیسرے درجے کی چیزوں کر آسمان پر چڑھانے کے لیے وضعداری سے کام لینا اصل احساس ذمے داری اور ادبی اصولوں سے غداری کے برابر ہے۔ جن لوگوں کو کچھ بھی پاس دیانتداری اور ساتھ ہی وضعداری نبھانے کا مسئلہ پیش آتا ہے وہ بیشتر اوقات خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ خاموشی قابل گرفت سہی مگر ریا کاری اور بددیانتی سے بہرحال بہتر ہوتی ہے۔
کتاب نام : اے دانشِ حاضر
مصنف: قیصر تمکین
صفحات : 157
پی۔ڈی۔ایف فائل سائز: 7.5 ایم۔بی
ڈاؤن لوڈ لنک: نیچے دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
اے دانشِ حاضر - ادبی مضامین از قیصر تمکین
Ae Danish-e-Hazir - By: Qaiser Tamkeen
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں