آج 28/ستمبر شہید وطن بھگت سنگھ کا 112 واں جنم دن ہے۔
گوکہ ان کی تاریخ پیدائش میں اختلاف ہے۔ کسی جگہ 27/ستمبر تو کہیں ماہ اکتوبر کی کوئی تاریخ بتائی جاتی ہے۔
شہید بھگت سنگھ کی یہ مختصر سوانح عمری پنڈت دیا کشن گنجور نے سن 1938 میں اردو میں تحریر کی تھی جس میں کافی محنت سے انہوں نے بھگت سنگھ کی زندگی کے حالات اور واقعات اکٹھا کیے ہیں اور خوشگوار اور دلچسپ زبان میں اسے بیان کیا ہے۔
121 صفحات کی یہ یادگار کتاب تاریخ آزادئ ہند کے ایک باب کے بطور ، پی۔ڈی۔ایف فائل شکل میں پیش خدمت ہے۔
دیگر انقلاب پسندوں اور بھگت سنگھ میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ انہوں نے غیرمعمولی طریقہ سے اس بات کا اعلان کیا کہ ہندوستان کو غلامی سے نجات اور حصولِ آزادی کی خاطر بغاوت کرنے کا حق حاصل ہے۔
تاریخ ہند سردار بھگت سنگھ جیسی متبرک ہستی کو کسی طرح فراموش نہیں کر سکتی جس نے طوق غلامی کو اتار کر پھینک دینے کے لیے اپنی عزیز زندگی کا ہر ہر لمحہ اس مقصد کے لیے وقف کیا اور اپنے گلے کو پھانسی کے پھندے کی نذر کر دیا۔ تختۂ دار پر چڑھتے ہوئے بھگت سنگھ کا آخری فقرہ، جو انہوں نے مسکراتے ہوئے انگریز ڈپٹی کمشنر کو مخاطب کر کے کہا تھا، ان کی شجاعت و استقلال کا بڑا زبردست ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا تھا:
"مسٹر مجسٹریٹ، آپ نہایت خوش قسمت ہیں کہ آپ کو یہ دیکھنے کا موقع نصیب ہوا کہ انقلاب پسند ہندوستانی اپنے حصول مدعا کے لیے کیسی خوشی کے ساتھ موت سے بغلگیر ہوا کرتے ہیں۔"
شہید بھگت سنگھ کے متعلق مہاتما گاندھی ارشاد فرماتے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے بھگت سنگھ کی دیش بھگتی، ان کی ہمت اور باشندگان ہند سے ان کی گہری محبت کی کہانیاں سنی ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کی ہمت کا اندازہ لگانا غیر ممکن ہے۔ ہزاروں لوگ آج ان کی موت کو اپنے عزیز کی موت کے برابر محسوس کرتے ہیں۔ کسی کی زندگی کے سلسلہ میں آج تک اتنا پراثر مظاہرہ نہیں کیا گیا جتنا بھگت سنگھ کے لیے۔ ہمیں ہر صورت میں ان کی قربانی، جفاکشی اور بےنظیر ہمت کی پیروی کرنا چاہیے لیکن ہمیں ان اوصاف کو اس طرح سے استعمال نہ کرنا چاہیے جس طرح انہوں نے کیا۔ ہمارے ملک کی نجات کشت و خون کے ذریعہ سے نہ ہونا چاہیے۔
شہید بھگت سنگھ کے متعلق جواہر لال نہرو کہتے ہیں۔۔۔یہ کیا بات ہے کہ یہ لڑکا یکایک اتنا مشہور اور دوسروں کے لیے رہنما ہو گیا۔ یہاں تک کہ مہاتما گاندھی بھی عدم تشدد کے پیغامبر ہوتے ہوئے آج بھگت سنگھ کی اس بڑی قربانی کی تعریف کرتے ہیں۔
ویسے تو پشاور، شولاپور، بمبئی اور دیگر مقامات میں سینکڑوں آدمیوں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں مگر بھگت سنگھ کا تیاگ اور ان کی جوانمردی بڑے بلند مرتبہ کی تھی۔ تاہم ہمیں یہ نہ بھول جانا چاہیے کہ ہم نے عدم تشدد کے ذریعہ سے آزادی حاصل کرنا طے کیا ہے۔
میں صاف صاف کہنا چاہتا ہوں کہ خود مجھے اس راشتہ پر چلنے سے شرم نہیں آتی۔ لیکن میں یہ خیال کرتا ہوں کہ تشدد کا راشتہ اختیار کرنے سے دیش کا بہت بڑا فائدہ نہیں ہو سکتا اور اس سے فرقہ واریت بڑھنے کا بھی اندیشہ ہے۔ ہم نہیں کہہ سکتے کہ بھارت کے آزاد ہونے سے پہلے ہمیں کتنے بھگت سنگھ ایسے بہادروں کی قربانیاں دینی ہوں گی؟ بھگت سنگھ سے ہمیں یہ سبق لینا ہے کہ دیش کے لیے ہمیں بہادری کے ساتھ مرنا چاہیے!
کتاب "بھگت سنگھ ، از: پنڈت دیا کشن گنجور" پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجیے۔
تعداد صفحات: 121
pdf فائل سائز: 5MB
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
بھگت سنگھ - از دیا کشن گنجور
Bhagat Singh - by Daya Kishan Ganjor
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں