غالب اور بنارس - مرتبہ از شاہد ماہلی - pdf download - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2019/09/30

غالب اور بنارس - مرتبہ از شاہد ماہلی - pdf download

ghalib-aur-banaras

مرزا غالب نے اپنی زندگی کے اہم دن رامپور، الہ آباد، آگرہ اور کلکتہ کے علاوہ بنارس میں بھی گزارے تھے۔ بنارس میں چند دنوں کے قیام نے غالب کی زندگی پر جو خوشگوار اثرات مرتب کیے اس کی نمایاں مثال غالب کی مشہور فارسی مثنوی "چراغِ دیر" ہے۔
غالب کی اس مثنوی کا شمار ہندوستان کے فارسی ادب کے اعلیٰ شہ پاروں میں ہوتا ہے۔ غالب نے بنارس کی آب و ہوا، وہاں کے لوگ، وہاں کی مشترکہ تہذیب اور وہاں کی تہذیبی اور ثقافتی زندگی کی بےپناہ تعریف کی ہے۔ اس مثنوی کے مطالعے سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ بنارش شہر کو شاید ہی کسی اور نے غالب سے بہتر خراجِ عقیدت پیش کیا ہو۔

یہ کتاب "غالب اور بنارس" ایک معنی میں غالب شناسی میں ایک اہم اضافہ ہے۔ اس کتاب میں پروفیسر صدیق الرحمٰن قدوائی، ڈاکٹر خلیق انجم، پروفیسر حنیف نقوی، پروفیسر شریف حسین قاسمی، ڈاکٹر اسلم پرویز اور دوسرے کئی اہم نقاد اور محقق جیسے ظفر احمد صدیقی، نسیم احمد، سید حسن عباس، ریحانہ خاتون، شمس بدایونی، یعقوب یاور اور رضا حیدر کے نہایت علمی مقالے موجود ہیں جن میں انہوں نے غالب اور بنارس کے حوالے سے تحقیق و تنقید کے نایاب گوشوں پر بحث کی ہے۔
پروفیسر حنیف نقوی نے غالب کی فارسی مثنوی "چراغِ دیر" کا منظوم اردو ترجمہ پیش کیا ہے۔

غالب اپنے ایک (فارسی) خط میں باندہ کے اپنے رفیق محمد علی خاں کو بنارس کے بارے میں بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
"بنارس میں ورود کے روز باد جاں فزا اور بہشت آسا نسیم مشرق کی طرف سے چلی جس نے میری جاں کو توانائی بخشی اور دل میں ایک تازہ روح پھونک دی۔ اس ہوا کے اعجاز نے میرے غبار کو فتح کے جھنڈوں کی طرح بلند کر دیا اور اس نسیم کی لہروں نے میرے جسم میں ضعف کا اثر نہ چھوڑا۔
کیا کہنے ہیں شہر بنارس کے۔ اگر میں اس کو فرط دلنشینی کی وجہ سے قلب عالم کا سویدائے قلب کہوں تو بجا ہے۔ کیا کہنے ہیں اس آبادی کے اطراف کے۔ اگر جوش سبز و گل کی وجہ سے میں اسے بہشت روئے زمین کہوں تو بجا ہے۔ اس کی ہوا مُردوں کے بدن میں روح پھونک دیتی ہے۔ اس کی خاک کے ہر ذرے کا یہ منصب ہے کہ مقناطیس کی طرح راہ رو کے پاؤں سے پیکان خار کو کھینچ لے۔ اگر دریائے گنگا اس کے قدموں پر اپنی پیشانی نہ ملتا تو وہ ہماری نظر میں اس قدر معزز نہ ہوتا۔ اور اگر خورشید اس کے در و دیوار کے اوپر سے نہ گذرتا تو وہ اس طرح روشن اور تابناک نہ ہوتا۔ دریائے گنگا بہ حالت روانی گویا کہ بحر طوفاں خروش ہے۔ دریائے گنگا کا کنارا ملاء اعلی کے ساکنین کا گھر ہے۔ سبزہ رنگ پری چہرہ حسینوں کی جلوہ گاہ کے مقابلے میں (یا اس کا عکس پڑ کر ) قدسیان ماہتابی کے گھر کتان کے ہو گئے ہیں (یہ شاعرانہ مفروضہ ہے کہ کتان کا لباس چاند کی روشنی میں پھٹ جاتا ہے)۔ اگر میں اس شہر کی کثرت عمارات کا ذکر کروں تو وہ سراسر سرمستوں کے ٹھکانے ہیں اور اگر میں اس کے اطراف کے سبزہ و گل کا ذکر کروں تو وہ گویا سراسر بہارستان ہے۔

(بحوالہ مضمون: غالب، بنارس اور مثنوی چراغِ دیر از: یعقوب یاور)

کتاب "غالب اور بنارس - مرتبہ از شاہد ماہلی" پی۔ڈی۔ایف فائل کی شکل میں یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیجیے۔
تعداد صفحات: 194
pdf فائل سائز: 7MB
ڈاؤن لوڈ تفصیلات کا صفحہ: (بشکریہ: archive.org)
غالب اور بنارس - مرتبہ از شاہد ماہلی
Ghalib aur Banaras - by Shahid Mahuli


Archive.org Download link:

GoogleDrive Download link:

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں