آج حالات بدلے ، وقت بدلا تو کدو کی کھیر ، خوبانی کا میٹھا ، فروٹ کا میٹھا اور دیگر میٹھے دسترخوان پر چھا گئے ہیں۔
لیکن ہمیں ڈبل کے میٹھے کی ناقدری پر بڑا افسوس ہوتا ہے چنانچہ ہمیں آج بھی وہ اتنا ہی عزیز ہے جتنا کل تھا۔ ہماری آنتیں آج بھی زعفرانی رنگ کا ڈبل کا میٹھا کھا کر زعفران زار ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ حال ہی میں جب ہمارے ہاں ہماری فرمائش پر ڈبل کا میٹھا بنایا گیا تو ہم اس سے یہ پوچھے بغیر نہیں رہ سکے کہ :
"میاں! ایک زمانے میں تمہاری بڑی مانگ تھی ، لوگ تمہیں مانگ مانگ کر کھایا کرتے تھے اور آج تم کو دیکھ کر لگتا ہے کہ گویا تمہاری مانگ اجڑ گئی ہے ، آخر تمہاری مانگ میں کمی کی وجہ کیا ہے؟"
ہمارا سوال سن کر بدحال ڈبل کے میٹھے نے سرد آہ بھری اور کہا :
"غرور و تکبر نے مجھے کہیں کا نہیں رکھا دوست! جس وقت میں دسترخوان کی زینت بنا کرتا تھا اور لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑتے تھے ، اس وقت میں اپنے آپ میں بڑا فخر محسوس کرتا تھا اور سوچتا تھا کہ میرے بغیر دسترخوان نامکمل ہے۔ میرا کوئی زوال نہیں ، میرا کوئی ثانی نہیں ، میں اسی طرح لوگوں کے دلوں پر بلکہ "پیٹوں" پر چھایا رہوں گا۔ آج بھی مجھے وہ دن یاد ہیں جب بڑے اہتمام کے ساتھ مجھے رکابی کے نیچے چھپا دیا جاتا تھا اور جب کوئی مہمان رکابی الٹتا تو مجھے دیکھتے ہی اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا۔ بلاشبہ جیسے شاہانہ ٹھاٹ باٹ والے دن میں نے گزارے ہیں ویسے دن کسی اور میٹھے کے حصے کے حصے میں نہیں آئے لیکن آج میں بہت برے دور سے گزر رہا ہوں۔ اکثر و بیشتر تو میرے بغیر ہی تقاریب منعقد ہونے لگی ہیں ، البتہ میں عموماً چہلم کی دعوتوں میں نظر آتا ہوں۔ بہرحال ! جب کبھی مجھے دسترخوان پر سجایا جاتا ہے ، لوگ میری جانب دیکھنا تک گوارا نہیں کرتے جب کہ کچھ لوگ بڑی حقارت سے میرے وجود کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے ایک آدھ ٹکڑا بادل نخواستہ اپنی رکابی میں اتار لیتے ہیں۔ ایسی ذلت ، ایسی توہین آج تک میرے حصے میں نہیں آئی لیکن یہ بات میرے لیے نہایت دل خوش کن ہے کہ آج کل میرے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو ملائی یا کریم کے ساتھ پیش کیا جا رہا ہے ، جسے لوگ شوق سے کھا رہے ہیں۔
لیکن وعدہ کرتا ہوں کہ اب میں کبھی غرور و تکبر نہیں کروں گا ، کیونکہ غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا ہے۔"
(اقتباس بشکریہ مضمون - "ڈبل کا میٹھا" از: حمید عادل)
غالباً آپ شاہی ٹکڑوں کی بات کررہے ہیں جو ڈبل روٹی (سینڈوچ بریڈ) سے بنتا ہے۔اگرچہ اب دعوتوں میں پیش نہیں کیا جاتا مگر گھروں میں اب بھی بنتا ہے۔
جواب دیںحذف کریںجس میٹھے کو شمالی ہند اور پاکستان میں "شاہی ٹکڑے" کا نام دیا جاتا ہے ، اسے دکن میں "ڈبل کا میٹھا" ہی کہا جاتا ہے۔ گو کہ ذائقے میں تھوڑا سا فرق بھی ہوتا ہے
جواب دیںحذف کریںبہت اچھا مضمون لکھا بھائی ۔ ڈبل کے میٹھا کی شکایت بھی ہے اس کی تاریخی حیثیت اورنصیحت بھی موجود ہے۔لکھنے کاانداز دلچسپ بھی ہے، بہت خوب ۔
جواب دیںحذف کریںحضور ۔ ہم تو اُس کوّے کی مانند ہیں جو اپنی دُم میں مور کا پنکھ لگا کر سمجھ بیٹھا تھا کہ مور بن گیا ۔ کہاں کے شاہی ٹکڑے اور کہاں کا شیر مال ۔ اب تو بات میکڈونلڈ ۔ کے ایف سی اور سب وے کی ہوتی ہے
جواب دیںحذف کریںBhai dobul ka meetha aur shaheetukre men faraq hai
جواب دیںحذف کریں