ہندوستان / پاکستان کے تعلقات ، تنازعات پر گفتگو کرنا غالباً پل صراط پر چلنے کے برابر ہے۔ اسلیے طویل صحافتی تجربے کے باوجود گریز کی راہ اپنانا ہی ہم نے بہتر سمجھا ہے ، بلاگ کی تمام پچھلی تحاریر گواہ ہیں۔
لیکن ۔۔۔ اس مراسلے کا عنوان بھی خود ہمارا اپنا منتخب کردہ نہیں ہے ۔۔۔ بلکہ جاوید چودھری کا ہفتہ وار کالم بعنوان "مرن دا شوق" جیسے ہی آج مطالعے سے گزرا ۔۔۔
اور اس سے قبل روزنامہ اردو نیوز (سعودی عرب ، 18/مئی 2012ء) کی یہ خبر جوں ہی پڑھنے کو ملی ۔۔۔۔۔ :
***
ہند نے 3 پاکستانی دریاؤں پر 7 ڈیمز بنانے کی تیاری شروع کر دی***
اسلام آباد (آن لائن)۔ ہند نے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 3 پاکستانی دریاؤں پر 7 ڈیم بنانے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے 700 ملین ڈالر کاربن کریڈٹ حاصل کرنے کے بعد پاکستانی کو خشکی اور پانی کی قلت میں دھکیلنے والے اس ہندوستانی منصوبے کو قانونی حیثیت مل جائے گی۔ یہ انکشاف اقوام متحدہ کی دستاویزات میں کیا گیا ہے۔ موسمی تبدیلی کے بارے میں اقوام متحدہ کی اس دستاویز میں یہ منصوبے کلین ڈیولپمنٹ میکنزم پروجیکٹ ڈیزائن ڈاکیومنٹ کے نام سے شامل ہیں۔ کاربن کریڈٹ ایک تجارتی سرٹیفکیٹ یا اجازت نامہ ہے۔ ہر کاربن کریڈٹ کی موجودہ اسپاٹ ریٹ پر اوپن مارکٹ میں خرید و فروخت کی جا سکتی ہے۔
جب اس حوالے سے وزیر اعظم پاکستان کے ایڈوائزر برائے پانی و بجلی ، کمال مجید اللہ سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ : وہ اس صوررتحال سے آگاہ ہیں تاہم انہوں نے اس پر فوری کوئی موقف دینے سے گریز کیا۔
ویسے ہی اچانک ذہن کے کسی گوشے سے یہ عنوان:
"پاکستان : کرپٹ سیاستداں ، بےحس قوم"
نکل کر قلم کی نوک پر وارد ہو گیا ! ایک بار پھر معذرت !!
ہمیں یاد ہے کہ برسوں قبل لڑکپن میں ہم جب اپنے اسکول میں تقریباً ہر ہم جماعت سے یہ سنتے تھے کہ ہمارا فلاں فلاں رشتہ دار پاکستان میں ہے ۔۔۔ تو ایک دن جھلا کر اپنے نانا (اب مرحوم !) سے پوچھ لیا تھا کہ : پھر ہمارا کوئی رشتہ دار پاکستان میں کیوں نہیں ہے؟
بزرگوار کا جواب (معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ) : ہم میں سے کسی نے ہجرت نہیں کی!
لڑکے کا سوال : کیوں ؟
بزرگانہ مشفقانہ جواب : تم جب بڑے ہو جاؤ گے تو اس کا جواب تمہیں خود بخود مل جائے گا!
اور اب ۔۔۔ زائد از ایک چوتھائی صدی بعد ۔۔۔
لڑکے کو اپنے سوال کا جواب مل چکا ہے !!
ایک بار پھر معذرت !!
بہت خوب۔۔۔۔ عمدہ انداز ہے بات کہنے کا۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںاب اپنے جواب کا راجندر سچر کمیشن رپورٹ، بابری مسجد کے انہدام اور گجرات کی نسل کشی سے بھی موازنہ کرلیجیے۔
حضرت پاکستان کے مسائل عارضی ہیں جبکہ ہندستانی مسلمانوں کے حالات ایک مستقل زمینی حقیقت ہے۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔۔۔۔۔۔
جواب دیںحذف کریںيعنی مسلمانوں کے ملک کی نسبت مسلمان کافروں کے ملک ميں ذيادہ سکھی ہيں؟ يہ تو دو قومی نظريہ کی ايسی تيسی کردی
جواب دیںحذف کریںالسلام علیکم محترم ۔ یہ بات نئی نہیں ہے ۔ میں نے جون 2005ء میں ایک خُلاصہ پیش کیا تھا جو مندرجہ ذیل ربط پر موجود ہے ۔ اس کے پہلے 8 بند پر نظر ڈالئے شاید کچھ وضاحت ہو پائے
جواب دیںحذف کریںhttp://www.theajmals.com/blog/%D8%AA%D8%AD%D8%B1%DB%8C%DA%A9-%D8%A2%D8%B2%D8%A7%D8%AF%DB%8C-%D8%AC%D9%85%D9%88%DA%BA-%DA%A9%D8%B4%D9%85%DB%8C%D8%B1/
ڈاکٹر صاحب ، باشعور لوگوں کو "موازنہ" کرنے سے قبل ایک اہم بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے۔ ہند میں مسلمان پچھتر فیصد سے زاید ہندوؤں کے زیراثر بطور "اقلیت" رہتے ہیں۔ جبکہ پاکستان تو مسلمانوں نے مسلمانوں کے لیے حاصل کیا تھا۔ اگر آپ مسائل کو "عارضی" کہہ کر خوش ہوتے ہیں تو آپ کی خوشی ۔۔۔ چلیے ہماری بھی خوشی۔
جواب دیںحذف کریںبابری مسجد کا انہدام ۔۔ کیا یہ صرف مسلمانانِ ہند پر ظلم ہے یا مسلمانان عالم کے لیے غور و فکر کا مقام؟ گجرات کی نسل کشی تو ایک متعصب کی سیاسی قوت کا اظہار تھا ، سوال تو یہ ہے کہ لال مسجد کا المیہ کس "تعصب" کی نشانی تھی؟
جناب المیہ لال مسجد کا نہیں بلکہ جامعہ حفصہ کا تھا اور اسکی وجہ یہ نہیں تھی کہ ایک دینی مدرسہ پاکستان کے لعنتی حکمران کو کھٹک رہا تھا بلکہ وجہ صرف یہ تھی کہ اس مدرسہ سے اسٹیٹ کی رٹ کو چیلنج کیا گیا تھا۔ لیکن اس سفاکی اور بہمیت کی قیمت وہ ملعون اس طرح ادا کررہا ہے کہ اسکو اپنے ملک میں رہنا نصیب نہیں ہے وہ اب جب بھی پاکستان آئے گا یقینی طور پر مارا جائے گا۔
جواب دیںحذف کریںچلیں آپ ہی بتادیجیے کہ مستقبل میں کب بابری مسجد کی دوبارہ تعمیر ہوسکے گی۔ دوبارہ تعمیر کو چھوڑیے کیا کبھی کوئی بھی عدالت یہ اعتراف کرسکے گی کہ شری رام کی جنم بھومی سے متعلق سارے دعوے غلط تھے یا پھر سانحہ گجرات سے متعلق کسی ایک شخص کو بھی قرار واقعی سزادی جاسکے گی۔
حالانکہ سعودی عرب میں جنوبی ایشیا کے ممالک کے لوگ بغیر کسی جھگڑے اور تلخی کے بہت دوستانہ ماحول میں رہتے ہیں مگر اس کے باوجود مجھے آج تک ہندستانی مسلمانوں کی قابل رحم حد تک پہنچی ہوئی دیش بھگتی سمجھ نہیں آئی۔
اسکی ایک مثال میں آپ کو دیتا ہوں جب گجرات میں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی تھی ان دنوں میں مکہ مکرمہ میں تھا اور یوپی سے تعلق رکھنے والے دو اصحاب کے ساتھ انکی دکان پر اپنا فارغ وقت گزارتا تھا۔ ایک بار ٹی وی پر یہی خبریں چل رہی تھیں کہ ایک بنگالی جذباتی ہو گیا اور کہنے لگا کہ آج کے بعد میں کسی میڈ ان انڈیا کو ہاتھ نہیں لگائوں گا۔بنگالی کی بات سن کر یوپی سے تعلق رکھنے والے دونوں اصحاب بیک وقت خفا ہوگئے اور اس سارے معاملے کو ہندو مسلم فساد قرار دینے لگے۔
ایک دوسرے صاحب جو ایک صیدلیہ پر کام کرتے تھے وہ تو یہاں تک گئے کہ جو کچھ گجرات میں وہ ہو رہا ہے وہ صحیح ہو رہا ہے۔ جس کو سن کر میں سناٹے میں رہ گیا میں نے پوچھا صحیح کیسے ہو رہا ہے؟ ارشاد ہوا کہ انکو کئی بار سمجھایا گیا کہ یہ لوگ اپنے آپ کو بڑا تیس مار خان سمجھتے ہیں۔ احمد آباد سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب سے جب میں نے وہاں کہ حالات پوچھے تو وہ قدرے خفا ہوگئے اور فرمایا کہ وہاں کے حالات کو کیا ہونا ہے سب ٹھیک ہے۔۔۔
پاکستانی یہ سب کچھ نہیں کرتے۔ آپ کا مضمون نہایت شائستہ اور مہذب انداز میں لکھا گیا ہے یہی مضمون اگر کوئی پاکستانی لکھتا تو بہت تلخی اور قدرے غیر شائستگی سے لکھتا کیونکہ اسکو وہ دیش بھگتی نصیب نہیں ہے جو انڈین مسلمانوں کو نصیب ہے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ میں پاکستان کے حالات کو عارضی قرار دیتا ہوں کہ یہ انارکی ،انتشار اور ہیجانی دور ہمیشہ نہیں رہے گا۔