جواں جواں ، حسیں حسیں : یہ لکھنؤ کی سرزمین - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2012/05/07

جواں جواں ، حسیں حسیں : یہ لکھنؤ کی سرزمین

لکھنؤ ریلوے اسٹیشن
لکھنؤ -- تصورات پر چھا جانے والا شہر ہے۔
حالانکہ حالیہ عرصے میں یہ شہر پست سطح کی سیاسی سرگرمیوں کا محور رہا ہے اور اس کو ہمیشہ ایک ایسے شہر کے طور پر دیکھا جاتا رہا ہے جہاں کی تہذیب و تمدن ، ایک نہایت ہی ترقی یافتہ مشکل میں پائی جاتی تھی۔
یہاں کے پکوانوں کی شہرہ آفاقی اور اس شہر کی زبان ایک پورے شاعرانہ دور پر حاوی رہی ہے۔ لیکن امین آباد کے گندے گلی کوچوں کے پیچھے چھپ جانے اور حضرت گنج کے مٹتے ہوئے عصری آثار کے باوجود بھی اس کے شاندار ماضی کی جھلک ہر جگہ نظر آتی ہے۔

لکھنؤ ، ہندوستانی ریاست اترپردیش کا صدر مقام ہے۔ اور اترپردیش ، ہندوستان کی کثیر آبادی والی ریاست ہے۔ اگر یہ ریاست کوئی علیحدہ ملک ہوتی ، تو برازیل کے بعد سب سے کثیر آبادی والا دنیا کا پانچواں ملک قرار دیا جاتا۔
اترپردیش کی آبادی تقریباً 20 کروڑ ہے اور ہندوستان کی 16 فیصد آبادی اس ریاست میں بستی ہے۔ اس ریاست کی آبادی کا ایک چوتھائی حصہ درج فہرست ذاتوں پر مشتمل ہے اور مسلمانوں کی آبادی بھی تقریباً ایک چوتھائی ہی ہے۔
ریاست کی سیاسی اہمیت ہندوستان کی دوسری تمام ریاستوں سے بہت زیادہ ہے۔ پارلیمنٹ میں اس کی 80 نشستیں ہیں ، جبکہ ریاستی اسمبلی 404 نشستوں پر مشتمل ہے۔ ہندوستان کے جملہ 14 وزرائے اعظم میں سے 8 کا تعلق اسی ریاست سے رہا ہے۔

سیاسی جماعت "سماج وادی" کے 38 سالہ اکھلیش یادو (جو کہ نامور سیاست داں اور سابق وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو کے فرزند اکبر ہیں) موجودہ وزیر اعلیٰ ہیں۔ سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی کی طرح وہ گنوار نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہیں۔ انہوں نے میسور کے ایک انجینرنگ کالج سے سول انجینرنگ میں گریجویشن کیا ہے اور یونیورسٹی آف سڈنی (آسٹریلیا) سے ماحولیاتی انجینرنگ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی ہے۔ ان کی اولادوں میں دو لڑکیاں اور ایک لڑکا شامل ہے۔

اکھلیش یادو کی اس نئی حکومت میں جو بات سب سے نمایاں نظر آتی ہے وہ بعض تاریخی غلطیوں کی اصلاح ہے۔ یہاں اب تعلیم پر زور دیا جا رہا ہے۔ کمپیوٹر کے استعمال میں اضافہ کر دیا گیا ہے اور انگریزی کو عام کرنے کی کوشش جاری ہے۔
ریاست کی مسلم آبادی کی حالت کو بہتر بنانے میں بھی ایک مقصدیت نظر آتی ہے۔ واضح رہے کہ نصف مسلم آبادی نے سماج وادی پارٹی کے حق میں ووٹ دیا تھا۔
گذشتہ ہفتہ امام کعبہ جب لکھنؤ آئے ہوئے تھے علی میاں کے نام سے موسوم ایک طبی اسکول کا افتتاح کرتے ہوئے مسلمانوں کو عصری تعلیم کے حصول پر ترغیب دلائی۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ عصری تعلیم اور تربیت کا تواتر کس قدر اہمیت کا حامل ہے؟
شمالی ہند کے مسلمان ، میڈیکل اور انجینیرنگ تعلیم اداروں کے قیام کے معاملے میں جنوبی ہند سے پیچھے رہ گئے ہیں جس کا انہیں اب احساس ہونے لگا ہے۔
آج کا لکھنؤ متحرک اور ملا جلا تہذیبی شہر نظر آتا ہے۔ پڑوسی ریاست بہار سے مسابقت ہر شعبہ میں نظر آتی ہے۔ جہاں پٹنہ (ریاست بہار کا صدر مقام) نے ترقی کی ہے وہیں اترپردیش کے شہروں نے بھی ترقی کی ہے۔ بہار اگر زیادہ پیداوار پر مشتمل ریاست بن چکا ہے تو اترپردیش بھی اس سے کچھ کم پیچھے نہیں ہے۔ سیدھے بازو کی انتہا پسندی جس کے سبب بابری مسجد کا انہدام ہوا تھا ، اب ایسی انتہا پسندی کہیں نظر نہیں آتی۔ یہ مستقبل میں مزید اچھائیوں کی نوید اور نقیب ہے۔

کلاسیک فلم "چودھویں کا چاند" میں پرانے لکھنؤ کی یاد دلانے والے مقبول شاعر شکیل بدایونی کہتے ہیں ۔۔۔
شباب و شعر کا یہ گھر
یہ اہلِ علم کا نگر
ہے منزلوں کی گود میں
یہاں ہر ایک رہگزر
جواں جواں حسیں حسیں
یہ لکھنؤ کی سرزمین، یہ لکھنؤ کی سرزمین

(عامر اللہ خان کے مضمون سے چند اقتباسات)
بشکریہ : روزنامہ اعتماد ، اتوار ایڈیشن ، 6/مئی 2012

1 تبصرہ:

  1. گمنام7/5/12 4:11 PM

    پڑھ کر یوں زیادہ اچھا لگا کہ میری والدہ کا تعلق بھی لکھنو
    سے ہے

    جواب دیںحذف کریں