سال 2011 میں اردو زبان و ادب کی صورتحال - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2012/01/02

سال 2011 میں اردو زبان و ادب کی صورتحال

روزنامہ اردو ٹائمز ممبئی نے اپنے اتوار ایڈیشن میں گزرے سال 2011ء میں اردو زبان و ادب کے متعلق ایک سوالنامہ یوں پیش کیا تھا :

  1. 2011ء میں آپ نے (اردو میں) ایسا کیا (کوئی کتاب ، کوئی افسانہ ، کوئی شعر ، کوئی تنقید یا کچھ اور) پڑھا جس کا تاثر اب تک ذہن میں ہو؟ یا کوئی ادبی واقعہ دل کو لگا ہو یا کوئی سانحہ جس نے آپ کو کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہو؟
  2. اردو زبان میں اب ایک ہی اخبار کئی کئی شہروں سے شائع ہونے لگے ہیں ، اس سے اردو زبان کی کوئی ترقی بھی ممکن ہے؟

دیگر نامور ادبی شخصیات کے بالمقابل سہ ماہی اثبات اور اردو کیمپس کے مدیر جناب اشعر نجمی کا تجزیہ اس قدر قابل مطالعہ رہا ہے کہ اشعر نجمی صاحب کی اجازت اور ان کے تعاون و شکریے کے ساتھ راقم الحروف اس پرفکر تجزیے کو اپنے بلاگ پر بھی پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

2011ء میں آپ نے (اردو میں) ایسا کیا (کوئی کتاب ، کوئی افسانہ ، کوئی شعر ، کوئی تنقید یا کچھ اور) پڑھا جس کا تاثر اب تک ذہن میں ہو؟ یا کوئی ادبی واقعہ دل کو لگا ہو یا کوئی سانحہ جس نے آپ کو کچھ سوچنے پر مجبور کیا ہو؟
ہر سال کی طرح امسال بھی کتابیں بہت چھپیں، بہت سارے اشعار کہے گئے، افسانے لکھے گئے لیکن ان میں سے کوئی ایسی چیز مجھے یاد نہیں جس کا تاثر اب تک میرے ذہن میں موجود ہو۔ البتہ سال رواں کے اخیر میں ایک ایسا واقعہ ضرور رونما ہوا جس نے کم از کم معاشرے میں ہم ادیبوں کی اوقات ضرور بتادی۔ گذشتہ دنوں جسٹس مرکنڈے کاٹجو نے مرزا غالب کو پس مرگ بھارت رتن ایوارڈ دیے جانے کا مطالبہ کیا تھا جس پر انھیں صرف اس لیے ہدف تنقید بنایا گیا، کیوں کہ لوگ کرکٹروں اور فلمی ستاروں کو اس ایوارڈ کا بہتر مستحق سمجھتے ہیں۔ جسٹس کاٹجو اسے ثقافتی ابتذال کی علامت بتارہے ہیں کہ ہم اپنے اصل "ہیرو" کا درجہ رکھنے والی شخصیات کو تیزی سے بھولتے جارہے ہیں۔ میں خود بھی اسے صرف کسی ایک ایوارڈ کے استحصال کی شکل میں نہیں دیکھ رہا ہوں بلکہ اس واقعے نے ہمیں یہ بھی جتادیا ہے کہ ہمارا معاشرہ ادب کو ایک فالتو چیز سمجھتا ہے اور "اسپورٹس" جیسی چیزوں کو ادب سے زیادہ اہم تصور کرتا ہے۔ معاشرے سے بھی شکایت کس منھ سے کریں کہ ہم ادیبوں نے بھی خود کوبے توقیر اور ذلیل کرنے میں کوئی کورکسر نہیں چھوڑا ہے۔ گذشتہ دنوں شہریار کو گیان پیٹھ جیسا موقر ادبی ایوارڈ امیتابھ بچن کے ہاتھوں سے دینے والوں اور حتیٰ کہ اسے لینے والے کی "رواداری اور خودشناسی" کی داد نہ دینا بے انصافی ہوگی۔ مشرق کی تہذیب و ثقافت پر اترانے والوں کو اپنی اس اختراع پر خوش ہونا چاہیے کہ اس بار انھوں نے مغرب کی نقل نہیں کی ہے۔ کیوں کہ مغرب کا ادنیٰ سے ادنیٰ ادبی ایوارڈ بھی اب تک کسی "ٹام کروز" یا "براڈ پٹ" جیسے ہالی ووڈ کے سپر اسٹاروں کے ہاتھوں نہیں دیا جاتا۔

سچن تندولکر کو بھارت رتن دیے جانے کے زوردار مطالبے سے ان لوگوں پر تو کوئی فرق نہیں پڑتا جو ادب کو بقول آڈن "شوق فضول" تصور کرتے ہیں (یہ اور بات ہے کہ انسان اس کے لیے جان کی بازی تک لگاسکتا ہے)۔ لیکن کم از کم ہمارے "خدائی خدمت گاروں" کو اب تسلیم کرلینا چاہیے کہ ادب کی حیثیت ثانوی ہے۔میری نظر میں غالب بھارت رتن کے اس لیے سب سے زیادہ مستحق ہیں، کیوں کہ
(1) وہ ہمارے آخری کلاسیکی اور پہلے جدید شاعر ہیں۔ جدید خیال اور جدید شاعری کی ابتدا نہ صرف ہندوستان میں، بلکہ سارے ہندوستان میں غالب سے ہوتی ہے۔
(2) غالب کے خطوط اور تحریروں میں قبل 1857 اور خاص کر بعد 1857 کی دہلوی تہذیب کے جو مرقعے ملتے ہیں اور پس نوآبادیاتی نظام کے لائے ہوئے منفی اثرات کے بارے میں بہت کچھ ملتا ہے جو اس لیے بھی قیمتی ہے کہ وہ براہ راست مشاہدے پر مبنی ہے۔
(3) غالب روشن خیالی اور صلح کل کے بہت بلند مرتبے پر فائز ہیں۔قومی یک جہتی کے تصور کو مضبوط کرنے کے لیے بھی آج غالب کی بہت ضرورت ہے۔
(4) دیگر زبانوں، خواہ شمال کی یا جنوب کی، ایسا کوئی شخص نہیں ملتا جس کا پیغام خاص کر قومی یک جہتی کا پیغام اور جدید تصورات کو قبول کرنے کی ترغیب دیتا ہو۔

اردو زبان میں اب ا یک ہی اخبار کئی کئی شہروں سے شائع ہونے لگے ہیں ، اس سے اُردو زبان کی کوئی ترقی بھی ممکن ہے؟
اول تو میں اس مفروضے ہی کو غلط سمجھتا ہوں کہ کسی رسالے یا اخبار کی تعداد اشاعت سے ہم اس زبان کی ترقی کو منسلک کر کے دیکھیں۔ لیکن اگر یہ مفروضہ درست بھی ہو تو مایوس ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے بلکہ ایک اخبار کے مختلف ایڈیشن جن شہروں سے نکل رہے ہیں، ظاہر ہے ان کے کچھ نہ کچھ قارئین بھی ضرورہوں گے ورنہ انھیں نکالنے کا کوئی جواز نہیں ٹھہرتا۔ پھر آپ یہ بھی دیکھیے کہ اردو کی کئی نیوز ایجنسیاں (جو پہلے نہیں ہوا کرتی تھیں) کام کررہی ہیں اور ظاہر ہے کہ منافع بھی کما رہی ہیں۔ ان کے علاوہ کئی اردو ٹی وی چینل چل رہے ہیں جو ظاہر ہے کہ اردو طبقے کے مطالبے کی بنیاد پر ہی جاری کیے گئے ہیں۔ کئی ریاستوں میں اردو کی تعلیم بھی مقابلتاً تسلی بخش ہے۔ لہٰذا جو لوگ اس زبان کے تعلق سے بہت فکرمند ہونے کا ناٹک کر رہے ہیں، وہ یا تو محض بیان بازی کررہے ہیں یا اپنے محدود مفادات کی خاطر حقیقت بیانی سے گریز کررہے ہیں۔ لیکن مجھے شک ہے کہ کہیں آپ اردو زبان کی ترقی کو اردو ادب کی ترقی سے وابستہ کر کے تو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ دونوں کے مسائل علاحدہ ہیں ، لہٰذا انھیں خلط ملط نہیں کرنا چاہیے۔

2 تبصرے:

  1. بہت عمدہ جواب ہے۔
    واقعی ہماری تہذیب اسی طرح زوال پذیر ہے کہ تخلیق کار نچلے درجے کے لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔

    جواب دیںحذف کریں
  2. اگر آپ اردو زبان میں اپنے پسندیدہ مضامین کو پڑھنا چاہیں تو بڑی حد تک ممکن ہے کہ آپ کو اس بات کا احساس ہوکہ جیسے اردو زبان میں کسی مضمون کا مکمل مطالعہ کرنا ممکن نہ ہو۔ جیسے اگر آپ ٹائم منیجمنٹ پڑھنا چاہیں تو آپ کو اردو زبان میں خال خال کتب ہی ملیں گی۔ اس کے علاوہ مارکیٹنگ پڑھنا چاہیں تو مجبوراً انگریزی کتب کی طرف رجوع کرنا پڑھتا ہے۔
    میری گزارش ہے کہ کتب تحریر نہیں کرسکتے لیکن انگریزی کی کتب کا اردو ترجمہ تو کرسکتے ہیں۔

    ثاقب شاہ

    جواب دیںحذف کریں