یکم نومبر 2007ء کو بلاگ اسپاٹ (blogger.com) پر جب اپنا نیا بلاگ (ہمارا پچھلا بلاگ ایک اردو بلاگنگ سروس پر قائم تھا جو بلا اطلاع ختم کر دی گئی) شروع کیا تھا تو گمان نہیں تھا کہ اس کو باقاعدگی سے چلا سکیں گے کیونکہ ہمارے کچھ قریبی احباب کا اس مقولے پر زور ہے کہ ہماری فطرت میں ایک جگہ ٹک کر کام کرنے کی خو نہیں ہے۔ اب ہم ان کے سامنے سینہ ٹھوک ای-میل مارنے جا رہے ہیں کہ دیکھو پاشا! ہم نے تمہاری دھمکیوں کے باوجود پورے چار سال مکمل کر لئے بلاگنگ کے !
پورے پچاس پوسٹوں کو یار لوگ "گولڈن جوبلی" کہتے ہیں۔ اور کچھ تو اس پر "پورے پچاس ہزار روپے" کا انعام ملنے کی امید دلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ :
سنا ؟ پورے پچاس ہجار ! اور یہ انعام اسلئے ہے کہ یہاں سے پچاس پچاس کوس دور بلاگنگ میدان میں جب بچہ رات کو روتا ہے تو ماں کہتی ہے سوجا بیٹا سوجا نہیں تو "حیدرآبادی" آ جائے گا ۔۔۔ تیری ناک میں دم کرنے ۔۔۔۔
لولززز ۔۔۔۔
"صاحب انعام ونام کی بات چھوڑئیے ، یہ بتائیے مٹھائی کب کھلا رہے ہیں؟"
ہمارے آفس میں بازو کی ڈیسک پر بیٹھے ایک سوڈانی صاحب فرماتے ہیں۔ اتفاق کی بات کہ اسی وقت ہمارے آفس کے ایک دوست چھٹی سے واپس کام پر لوٹے تھے اور ہماری خواہش پر کرنول کی مٹھائی لے آئے تھے ، وہی ہم نے اپنے کولیگ کو پیش کر دی۔
مٹھائی کے نام پر یاد آیا کہ ہم نے ہر چند کہ کرنول کی مشہور مٹھائی "بن کھوا" خصوصی طور پر منگوائی تھی۔ آج سے کوئی پچیس تیس سال پہلے ہمارے بچپن میں "بن کھوا" نامی مٹھائی کا اس قدر شہرہ تھا کہ جیسے آگرہ کا پیٹھا یا بنگال کا رس گلہ یا ممبئی کے افلاطون کا چرچا چہاردانگ عالم ہے۔
مگر افسوس کہ امتداد زمانہ نے اور "ہائی جینک [hygienic] سویٹس" کی دلخوش کن اصطلاح کے سہارے عصر حاضر کے مشینی کاروبار نے لگتا ہے سب ختم کر دیا۔
اس موضوع پر وضاحت کرتے ہوئے منصف ٹی۔وی میں برسرکار ہمارے کرنولی دوست سجاد الحسنین کہتے ہیں کہ ۔۔۔۔۔
ظاہر سی بات ہے کہ نئی نسل پزا اور برگر کے چکر میں مشغول ہے اور مٹھائی فروش بن کو کاٹ کر اس میں کھوا بھرنا شان کے خلاف سمجھنے لگے ہیں۔ "بن کھوا" نامی مٹھائی پوچھی جائے تو آجکل ہوتا یہ ہے کہ ایک ہاتھ سے بن تھمایا جاتا ہے اور دوسرے ہاتھ سے ایک چھوٹی سی پلیٹ جس میں ذرا سا کھوا رکھا ہوتا ہے۔
قادر خان حلوائی کرنولی کے زمانے کے لوگ اب رہے کہاں جو ریت رواج تہذیب اور ذائقے پر جان دیا کرتے تھے۔ آج وہی مٹھائی تو ہے مگر اس میں جو خلوصِ شیریں ہوا کرتا تھا ، وہ عنقا ہے۔
سچ کہا سجاد پاشا بھائی نے۔ صرف مٹھائی کی کیا بات کریں ۔۔۔۔
وقت نے تو بستی کی ، شکل ہی بدل دی ہے
جن پہ رونقیں تھیں وہ ، بام و در نہیں ملتے
چاہتوں بھرے کمرے ، دل کھلے ، کھلا آنگن
اب تو ڈھونڈنے پر بھی ، ایسے گھر نہیں ملتے
سب نے ہر ضرورت سے ، کر رکھا ہے سمجھوتا
لوگ ملتے رہتے ہیں ، دل مگر نہیں ملتے
مبارکباد قبول کیجیے۔
جواب دیںحذف کریںبہت خوب لکھا کہ
لوگ ملتے رہتے ہیں، مگر دل نہیں ملتے