اسامہ بن لادن کی موت - یکطرفہ حقائق کی بنیاد پر فیصلہ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2011/05/10

اسامہ بن لادن کی موت - یکطرفہ حقائق کی بنیاد پر فیصلہ

انصاف کا تقاضا اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا ، جب تک کسی معاملے میں فریقین کی بات سنی نہ جائے، انہیں اظہارِ حقیقت کا موقع نہ دیا جائے اور ملزم کیلئے صفائی پیش کرنے کی گنجائش نہ رکھی جائے۔
یہ اسلامی نقطۂ نظر بھی ہے اور انصاف کا تقاضا بھی۔

سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إذا تقاضى إليك رجلان ، فلا تقض للأول ، حتى تسمع كلام الآخر
جب تمہارے پاس دو اشخاص کا معاملہ آئے تو جب تک دوسرے کی بات نہ سن لو ، پہلے کے حق میں فیصلہ نہ کرو۔
ترمذی ، کتاب الاحکام ، باب ماجاء فی القاضی

ہر مہذب حکومت اور سماج میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ فریقین کی بات سننے کے بعد ہی فیصلہ کیا جائے۔
یکطرفہ فیصلہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ملزم کو صفائی کا موقع نہیں ملتا اور وہ فیصلہ ہرگز انصاف کے مطابق نہیں ہو سکتا ، جس میں فریق مخالف کو صفائی کا موقع نہ دیا جائے۔ اسلام کی نظر میں یہ معاملہ اتنا اہم ہے کہ حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) اور حضرت علی (رضی اللہ عنہ) جیسے خلفاء راشدین کو بھی عدالت نے دعویٰ کے ثبوت کیلئے تنہا اس کے استغاثہ کو کافی نہیں سمجھا، اصول کے مطابق عدالت کی کاروائی چلائی گئی اور اپنے مدعا پر ان سے گواہان بھی طلب کئے۔ یہاں تک کہ ایک مقدمہ میں حضرت علی (رضی اللہ عنہ) کے حق میں حضرت حسن (رضی اللہ عنہ) کی گواہی اس وجہ سے رد کر دی گئی اور دعویٰ خارج کر دیا گیا کہ وہ ان کے صاحبزادے ہیں ، اور باپ کے حق میں بیٹے کی شہادت معتبر نہیں۔
فقہاء اسلام نے اس اصول کی ایسی پابندی کی ہے کہ امام ابوحنیفہ (رحمۃ اللہ علیہ) کے نزدیک مدعی علیہ کی موجودگی کے بغیر نہ مقدمہ کی سماعت کی جا سکتی ہے اور نہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ دوسرے فقہاء کے نزدیک اگر مدعی علیہ لاپتہ ہو یا صفائی کا بار بار موقع دئے جانے کے باوجود حاضر نہ ہوتا ہو تب تو اس کی موجودگی کے بغیر فیصلہ کرنے کی گنجائش ہے ، ورنہ مدعی علیہ کی حاضری کے بغیر کسی مقدمہ کی سنوائی اور اس کا فیصلہ درست نہیں۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بین الاقوامی عدالت میں اس مقدمہ پر بحث ہوتی ، اسامہ بن لادن اور ان کے رفقاء کو وضاحت کا حق دیا جاتا اور اگر ان کا جرم ثابت ہو جاتا تو انہیں قرار واقعی سزا دی جاتی لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا بلکہ امریکہ نے بین الاقوامی منظوری کے بغیر بطور خود افغانستان پر حملہ کیا ، ایک منظم حکومت کو بےدخل کر دیا اور لاکھوں انسانوں کا خون بہایا ، نیر 11/ستمبر کے واقعہ کے سلسلے میں یہودیوں کے کردار سے متعلق جو شہادتیں پیش کی گئیں ، ان کو بالکل نظرانداز کر دیا گیا۔

اس واقعہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ مجرم کو ہر شخص اپنے طور پر سزا دینے کا حق نہیں رکھتا ، اگر اس طرح کی اجازت دے دی جائے تو سماج میں امن درہم برہم ہو جائے گا اور زورآور افراد کمزوروں کو اپنے لئے لقمۂ تر بنا لیں گے۔ اسلام کا تصور یہ ہے کہ سخت جسمانی سزائیں دینے کا حق سربراہ حکومت کو ہے اور کوئی شخص قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لے سکتا ۔۔۔۔۔
۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام ممالک کو امریکہ کے اس رویہ کے خلاف احتجاج کرنا چاہئے۔

اس واقعہ میں تیسرا قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ اسامہ بن لادن کی لاش لینے کو نہ پاکستان تیار ہوا اور نہ کسی اور مسلم ملک نے اس پر آمادگی ظاہر کی ، یہ بہت ہی قابل افسوس بات ہے۔ ایک مسلمان چاہے کچھ بھی ہو ، اس کے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان اخوت کا رشتہ باقی رہتا ہے اور اس رشتہ کے تقاضوں میں سے یہ ہے کہ اس پر نماز جنازہ پڑھی جائے اور اس کی تدفین عمل میں آئے ، شریعت نے اسے فرض کفایہ قرار دیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔

بہرحال اب تک یہ بات پایۂ ثبوت کو نہیں پہنچی ہے کہ اسامہ بن لادن 11/ستمبر کے واقعہ میں ملوث تھے۔ امریکہ کا نقطۂ نظر یہ رہا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے ، لوگ اسے بےچوں چرا تسلیم کر لیں ، یہ ایسی منطق ہے کہ اگر اقوام عالم ایک قضیہ یا ایک شخص کے معاملہ میں اس طرز عمل کو تسلیم کر لیں تو پھر کسی طاقتور ملک یا گروہ کا ہاتھ تھامنا اور ان کو ظلم و ناانصافی سے باز رکھنا مشکل ہو جائے گا۔ دنیا میں فوجی طاقت کے ذریعہ امن و امان قائم نہیں ہو سکتا۔ بلکہ انصاف کے ذریعہ امن و امان قائم ہو سکتا ہے ، اگر انصاف کے الگ الگ پیمانے ہوں اور طاقتور کو سچا اور کمزور کو جھوٹا اور مجرم سمجھا جانے لگے تو پھر انسانوں کی یہ دنیا درندوں کی دنیا بن جائے گی۔ اسلئے حقیقت یہ ہے کہ اس مسئلہ پر اصولِ انصاف اور انسانی تقاضوں کی روشنی میں غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ تعالیٰ عالم اسلام اور ملت اسلامیہ کو شعور عطا فرمائے کہ وہ صلیبی اور صیہونی طاقتوں کی دور رس سازشوں کو سمجھیں اور انہیں اس بات کی توفیق عطا ہو کہ وہ اپنے آپ کو ان کے مقابلہ کے لائق بنائیں اور پوری دنیا میں انصاف کے علمبردار بنیں۔


بشکریہ :
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ
(سرپرست اعلیٰ المعہد العالی الاسلامی ، حیدرآباد۔ انڈیا )
بحوالہ : روزنامہ "انقلاب" ممبئی۔ 6/مئی/2011

4 تبصرے:

  1. پکچر ابھی تو شروع ہوئی، پھر انٹرول اور آخر میں خلاصہ بھی ہوجائے گا کہ راز کیا ہے!

    جواب دیںحذف کریں
  2. ايک اچھی تحرير سے رو شناس کرانے کا شکريہ ۔ آپ کو شايد ياد ہو کہ سابق صدر امريکا جارج واکر بُش نے کہا تھا " حقيقت وہ ہے جو ہم کہتے ہيں "۔
    کہاں کی عدالت اور کہاں کا انصاف ؟ اور وہ بھی ان دولت اور جنس پرستوں سے ؟

    جواب دیںحذف کریں
  3. طاقتور کو سچا اور کمزور کو جھوٹا اور مجرم سمجھا جانے لگے تو پھر انسانوں کی یہ دنیا درندوں کی دنیا بن جائے گی۔

    بس یہ وہ نکہ ہے جس وجہ سے اسلام طاقتور کے سامنے ڈٹ جانے کی تاکید کرتا ہے۔ ورنہ طاغونی طاقتیں کبھی کی بنی نوع انسان اور انسانیت کو سرنگوں کر کی ہوتیں۔

    اللہ تعالٰی آپکو اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی حفظہ اللہ کو جزائے خیر دے اور آپ کے جذبہ اخوت کا بدلہ دے۔

    جواب دیںحذف کریں
  4. ثبوت تو ابھی اس بات کا بھی نہیں ملا ہے کہ جسے مارا گیا وہ واقعی اسامہ بن لادن تھے یا نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

    جواب دیںحذف کریں