کسی روتے ہوئے بچے کو ہنسایا جائے
ندا فاضلی کے اس شعر کو انسان دوستی کا مظہر کہا جاتا ہے اور اس شعر پر وہ بیشتر مشاعروں میں کافی داد بھی پا چکے ہیں۔
لیکن ۔۔۔۔
ندا فاضلی ہی کے ہم عصر شاعر شکیل اعظمی نے اس شعر پر نقد کرتے ہوئے کہا ہے کہ :
یہ شعر انسان دوستی کا استعارہ نہیں بلکہ محض ایک اہم اور بنیادی مذہبی فریضے سے انکار کی حیلہ تراشی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ دوسرے مصرعہ کا پہلا لفظ "کسی" غور طلب ہے۔ یعنی ایسا نہیں ہے کہ متکلم مسجد کیلئے نکلا ہو اور راستے میں اسے ایک روتا ہوا بچہ مل گیا ہو جسے ہنسانے کو وہ نماز پر ترجیح دے رہا ہو ، بلکہ یہاں یہ معمولی سا لفظ ("کسی") بتا رہا ہے کہ فی الحال کوئی روتا ہوا بچہ وہاں موجود ہی نہیں ہے لہذا وہ کسی روتے ہوئے بچے کی تلاش میں ہے۔
معروف ادیب اور مدیر سہ ماہی "اثبات" اشعر نجمی ، ندا فاضلی کے اس شعر پر نقد کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں :
اب اگر کوئی یہ کہے کہ کسی شعر کو پرکھنے کے لئے مذہبی معیار نہیں بلکہ ادبی معیار کی ضرورت ہوتی ہے تو پھر میں یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ : اگر شاعر نے اپنا شعر مذہبی بنیادوں پر ایستادہ کیا ہے تو پھر اس کے استعاراتی یا فنی نظام سے پہلے اس کا محاکمہ بھی انہی مذہبی نظام کی بنیادوں پر کیا جائے گا۔
چونکہ شعر مذکور کا متکلم بچے کے ہنسانے کو مسجد جانے پر ترجیح دے رہا ہے تو پھر اس کی نیت کا محاسبہ بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ وہ واقعی مسجد جانا چاہتا ہے یا اس کی دوری کے بہانے اس کا نعم البدل پیش کر کے محض اپنی انسان دوستی کا ڈھنڈورا پیٹنا چاہتا ہے؟؟
ندا فاضلی کا ایک اور شعر دیکھیں :
بچہ بولا دیکھ کر مسجد عالی شان
اللہ تیرے ایک کو اتنا بڑا مکان
یہ کیسے مان لیا جائے کہ ندا فاضلی کو مسجد کے متعلق یہ علم نہیں کہ لغوی معنی میں یہ اللہ کا مکان نہیں بلکہ عبادت گاہ ہے اور مسجد کو اللہ کا گھر کنایتاً بولا جاتا ہے۔ اس کے باوجود اگر ندا فاضلی اللہ میاں کو one room kitchen میں ہی محصور کرنے کے خواہش مند ہیں تو انہیں اس کا جواز بھی پیش کرنا چاہئے تھا۔ انہیں یہ بتانا چاہئے تھا کہ آخر وہ مسجد پر مفلوک الحالی برستا کیوں دیکھنا چاہتے ہیں؟
اقبال نے اسی موضوع کو جب چھوا تو وہاں تشکیک کا پہلو بالکل نہیں تھا بلکہ انہوں نے "مذہبی منافقت" پر کاری ضرب لگائی ۔۔۔
مسجد تو بنا لی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانی پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اقبال کے اس شعر میں تضحیک نہیں طنز ہے جس میں اصلاح معاشرہ کی واضح جھلک موجود ہے۔ انہوں نے مسجد کے وجود پر سوالیہ نشان لگانے کے بجائے "ضعف ایمان" کو نشان زد کیا۔
اس کے برخلاف ندا فاضلی مسجد کو ہی شک بھری نگاہ سے دیکھنا شروع کر دیتے ہیں اور بچے کی زبان سے اپنے من کی بات کہہ جاتے ہیں۔
ان مثالوں سے واضح ہے کہ "انسان دوستی" جیسی اصطلاحیں ، درحقیقت اپنے مخصوص افکار کی تشہیر کے لئے اور اپنے مقابل افکار کو زیر کرنے کے لئے استعمال میں لائی جاتی ہیں۔
اٹھ اٹھ کے مسجدوں سے نمازی چلے گئے
دہشت گردوں کے ہاتھ میں اسلام رہ گیا
میں اس شعر پر ندا فاضلی کو مبارکباد دینا چاہوں گا کہ آج تک جو بات اتنا کھل کر بالا صاحب ٹھاکرے ، پروین توگڑیا ، نریندر مودی اور جارج بش بھی نہ کہہ پائے ، انہوں نے کہہ کر اس میں اولیت حاصل کر لی ہے۔
لیکن یہاں میں ان سے صرف اتنا دریافت کرنا چاہوں گا کہ حیدرآباد ، مالیگاؤں ، عراق ، افغانستان ، فلسطین وغیرہ کے متعلق ان کا کیا موقف ہے؟
یہ جو ہر روز نئے نئے انکشافات ہو رہے ہیں کہ فلاں دہشت گردی کے معاملے میں مسلمانوں کے بجائے کسی اور قوم کے مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ تھے ، یا پھر وہ معصوم مسلم نوجوان جنہیں دہشت گر بنا کر جیلوں میں سڑایا جا رہا ہے ، یا پھر وہ بابو بجرنگی جو عدالت سے ضمانت پا کر کھلے عام گجرات کی نسل کشی پر فخریہ بیان دے رہا ہے ، یا وہ شری کرشنا کمیشن جس کی رپورٹ پر دھول کی ایک موٹی تہہ جم چکی ہے ۔۔۔۔ لیکن اب تک نہ تو اس پر کوئی کاروائی ہوئی اور نہ اس کی کوئی امید ہے۔ یا پھر توہین رسالت کی گلوبلائیزیشن ، عراق میں 17 لاکھ عام شہریوں کا قتل عام ، فلسطین میں اسرائیلی فوجوں کا قہر ، افغانستان میں امن اور انسان دوستی کے نام پر عورتوں ، بوڑھوں اور بچوں کا قتل عام وغیرہ وغیرہ سے کیا ندا فاضلی واقعی بےخبر ہیں؟
مجھے نہیں پتا کہ وہ روزانہ کون سا اخبار پڑھتے ہیں یا کون سا نیوز چینل دیکھتے ہیں ، اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا کیونکہ ایک عام شخص بھی ان حقائق سے واقف ہے۔
میرے خیال میں ندا فاضلی ہی بتا سکتے ہیں کہ ان دہشت گروں میں کتنوں کا تعلق اسلام سے ہے اور کتنوں کی ڈاڑھیاں ہیں؟ مجھے نہایت افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ ندا فاضلی کے محولہ بالا افکار نہ صرف حقائق سے مکمل بےخبری کا ثبوت ہیں بلکہ دانشورانہ بددیانتی سے بھی عبارت ہیں جنہیں وہ محض زور بیاں کے بل پر اپنے قارئین و سامعین سے داد وصول کرنے کے لئے پیش کرتے رہے ہیں۔
اس مقام پر اگر کوئی شخص یہ نتیجہ نکالتا ہے تو شائد غلط نہ ہوگا کہ "انسان دوستی" اور "انسانی دردمندی" ندا فاضلی اور ان کے ہم خیالوں کا ایمان نہیں بلکہ ان کے لئے یہ صرف ایسے ادبی تقاضے ہیں جن کی بنیاد پر وہ محض ان کا تاثر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، جبکہ وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر لوگوں کی مقدس وابستگیوں ، ان کے عقائد اور ان کے مذہبی جذبات وغیرہ جیسی چیزوں کا مذاق اڑاتے رہے ہیں جو بقول وارث علوی ، یہ بتانے کے لئے کافی ہے کہ :
انسانی دردمندی کا چشمہ اگر سوکھ جائے تو آدرش اور اخلاق سفاکیوں کی نقاب بن جاتے ہیں۔
کلچر ، جس میں مذہب کا کردار خواہ کتنا ہی چھوٹا اور معمولی کیوں نہ ہو ، قابل احترام ہے کہ وہ لوگوں کو حیات کا قرینہ بخشتا ہے۔ اور اتنا تو خیر ندا فاضلی تسلیم کرتے ہی ہوں گے کہ کسی بھی کلچر کو گزند پہنچانے اور تباہ کرنے کی کوشش انسانیت کے خلاف ہولناک جرم ہے۔
کچھ رد و بدل و اضافہ کیساتھ ، بشکریہ : اداریہ سہ ماہی "اثبات"۔
ٹھیک کہا جناب آپ نے۔ اور اس کے لئے دانشورانہ بددیانتی کی اصطلاح بھی خوب پیش کی۔
جواب دیںحذف کریںاس طرح کے اشعار کے پیچھے جو سوچ کار فرما ہے اسے بہت خوبی سے بے نقاب کیا گیا ہے اس تحریر میں۔
اتنے اچھے مضمون کو سامنے لانے پہ اللہ تعالٰی آپکو جزائے خیر دے۔
جواب دیںحذف کریںاسمیں کوئی شک نہیں کہ بودے قسم کے نام نہاد مسلمان ایک پرگرام کے تحت مسلمانوں کی صفوں کو نقصان پہنچارہے ہیں۔ جس کا نام کبھی "انسان دوستی" کبھی "انسانی حقوق" اور کبھی نام نہاد "روشن خیالی" جب کہ ہم دعوے سے کہتے ہیں کہ ایسے لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت اپنے ذاتی کردار میں اسلام سے منحرف ہے۔ انکے قول اور عمل میں تضاد ہے۔
اللہ آپکو ادبی بدیانتی یا باالفاظ دیگر اسلام بیزارگی سے متعلق لوگوں کی منافقت کا پردہ چاک کرنے پہ جزائے خیر دے۔
گھر سے مسجد ہے اگر دور تو تو یوں کرلے
جواب دیںحذف کریںوضو کر گھرمیں ہی ادا کرلے
گر بچے ہنسانے کا تجھے ہے اتنا شوق
جوکر گری کو فل ٹائم پیشہ کر لے
ہنستے بچے نہ ملے تو ہنستوں کو رلا
مار پتھر، قلفیاں چھین کر بھاگ جا