بشکریہ : اداریہ - ماہنامہ "تحریر نو (ممبئی)" [مارچ / 2011ء] - ظہیر انصاری
اردو ادب اپنے انتہائی Falsehood دور (تلبیسی دور) سے گذر رہا ہے ۔ اس کے ادیبوں اور شاعروں کی خوش گمانیاں حد درجہ بڑھی ہوئی ہیں ۔ یہ خود کو بہت بڑا سپر اسٹار سمجھنے لگے ہیں۔ احساس بر تری کے شکار یہ ادیب اور شاعر اپنے آگے کسی کو کچھ سمجھنے یا ماننے کو تیار نہیں۔یہ اپنی شہرت کے لئے نت نئے حربے استعمال توکرتے ہی ہیں اس شہرت کو بھنانے کے لئے بھی نئی نئی چالیں چلتے رہتے ہیں ۔
ہمارے کچھ قارئین یہ پوچھتے رہتے تھے کہ سلسلہ وار ناول"گرداب" جس کی تین قسطیں "تحریر نو" میں لگا تار چھپیں ، کیوں نہیں آ رہا ہے ، تو مجھے جواب دینا نہیں بن پڑ رہا تھا ۔ میں یہ کہتا رہا کہ اگلے شمارے میں آئے گا ۔۔۔ اگلے شمارے میں آئے گا ۔ جب حد ہو گئی تو اس کے مصنف شموئل احمد سے پوچھا کہ " جب آپ اگلی قسطیں نہیں بھجوا رہے ہیں تو کیوں نہ میں 'نوٹ' لگا دوں کہ کسی وجہ سے ناول کی اگلی قسطیں شائع نہیں ہوں گی"۔
"آپ کیوں نوٹ لگائیں گے ۔ ایسا ہی چلنے دیجئے ۔ لوگوں کا تجسس بر قرار رہے گا"۔ یہ ان کا جواب تھا۔
جب میں نے انھیں یا د دلایا کہ آپ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ مکمل ناول جلد بھیج دیں گے ۔ اب آپ اپنے وعدے سے مکر رہے ہیں ۔ پھر وہ چراغ پا ہو گئے ۔
" آپ کو معلوم نہیں کہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں؟ میں کسی اور کام میں مصروف ہوں ۔ مجھے ہندی والے ایک لاکھ روپیہ دے رہے ہیں ۔ آپ دیں گے کیا؟" ۔
یہ ان کا سخت جواب تھا۔ اکثر اردو والے یہی کہتے ہیں کہ آپ کو معلوم نہیں آپ کس سے بات کر رہے ہیں۔ دوسری زبان کا کوئی ادیب ایسی علت میں مبتلا نہیں ہے۔
ہوا یہ کہ انھی دنوں واجدہ تبسم کا انتقال ہوا تھا ۔ جس کی خبر "صحافت" ممبئی میں چھپی تھی ۔ فاضل رپورٹر کے مطابق ستّر کی دہائی میں " شمع " والے واجدہ تبسم کو فی افسانہ دو ہزار روپے دیتے تھے اور پانچ اقساط کی رقم پیشگی ادا کردیتے تھے ۔ یہ پڑھنا تھا کہ شموئل احمد کا دماغ خراب ہو گیا اور وہ شخص جو آئے دن فون کیا کرتا تھا تا کہ ان کا افسانہ / قسط وار ناول "تحریر نو" میں چھپ سکے اچانک مادی پرست ہو گیا ۔ انھیں نروان ہوا کہ ان کے ناول کی وجہ سے تحریر نو کی ریڈر شپ بڑھ گئی ہے کیوں نہ روپے کا ڈیمانڈ کیا جائے ۔ چوتھی قسط کے لئے جب میں نے فون کیا تھاغالباً چھ ماہ پہلے تو شموئل احمد صاحب نے ریاکارانہ طور پر یہ جواب دیا تھا کہ میں بالراست Lap Top پر لکھتا ہوں ۔ فائل کرپٹ ہو گئی ۔ retrieve کر کے بھیجتا ہوں ۔ لیکن ہوا یہ کہ آہستہ آہستہ ان کا ہارڈ ڈسک (بمعنی دماغ) کرپٹ ہونا شروع ہو گیا جو شاید ممکن نہیں کہ اب retrieve ہو سکے ۔
قارئین "تحریر نو" اس تفصیل کو برائے نوٹ سمجھیں ۔ گرداب کی اگلی قسط کیا اب کوئی بھی چیز شموئل صاحب کی نہیں چھپے گی ۔ انھوں نے اس ethics سے انحراف کیا ہے جسے انھیں نہیں کرنا چاہئے ۔ بنیادی زبان اردو ہی ہے جس سے انھوں نے اپنی شہرت کی عمارت کھڑی کی ہے ۔ اب ہندی کا رنگ و روغن پیش کر کے آخرتِ اردو نہ گنوائیں کہ یہ کس قدر حماقت ہے کہ اردو کا جو حال ہے اس کی درستی میں صاحبِ قلم حضرات اپنا تعاون نہ پیش کر کے الٹا کچھ ڈیمانڈ کریں ۔ انھیں ضرور اپنا معاوضہ طلب کرنا چاہئے لیکن ان اداروں سے جو خودہی محنتانہ دیتے ہیں اور یہ انھیں معلوم بھی ہے کہ وہ ادارے کون کون سے ہیں ؟ شموئل احمد یہ نہ بھولیں کہ لاکھ وہ ہندی میں چھپیں لیکن کہلائیں گے اردو کے رائٹر ہی۔
کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ شموئل احمد کی اس حرکت پر اداریہ لکھنے کی کیا ضرورت ہے لیکن ہمیں کہنے دیجیئے کہ وہ جس hype اور تجسس کے غبارے میں ہوا بھرنا چاہتے ہیں اس ہوا کو ہوا کرنا ہی ہمارا مقصد ہے۔ ہم یہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے نہ صرف ہمیں گمراہ کیا بلکہ تمام قارئین سے بد دیانتی کی ہے۔ ان کا ناول نہ صرف ادھورا ہے بلکہ ابھی ابتدائی مراحل سے بھی کوسوں دور ہے۔ قارئین کرام یاد کریں کہ کس قدر چالاکی سے شموئل احمد نے پہلی قسط "افسانے"عنوان کے تحت چھپوایا تھا۔ بعد میں وہ قسط وار ناول کے طور پر چھپنے لگا۔ کیا ایک (خود ساختہ بڑے) رائٹر کو یہ سب زیب دیتا ہے، اور کیا یہ حربے استعمال کرنا ضروری ہیں؟
ادب میں Falsehood کی دوسری مثال ہمارے راشد انور راشد ہیں ۔ انھیں بھی بڑا شاعر ہونے کا obsession ہو گیا ہے ۔ "افکارِ مدیران ہند" نمبر ملنے پر فون کیا کہ آپ نے خورشید طلب پر مضمون کیوں شائع کیا ہے جب کہ مجھ پر مضمون شائع کرنے سے آپ نے انکار کر دیا ۔ میرا جواب تیار تھا کہ :
وہ اس لئے کہ خورشید طلب پر مضمون عشرت ظفر صاحب نے براہ راست بھیجا تھا جب کہ آپ نے اپنی شاعری پر مضمون ڈاکٹر احمد امتیازسے لکھوا کر ( ہو سکتا ہے کہ لکھ کر بھی ) آپ نے خود بھیجا ہے ۔
اس تلخ جواب سے وہ تلملا اٹھے ۔ ان کا sms آیا کہ آپ مجھے رسالہ مت بھیجیں ۔
راشد انور راشد "تحریر نو" کے خریدار ہیں۔ اس خریداری کو قبول کرنے کی بھی کہانی بڑی دل چسپ ہے۔ ایک روز فون پر کہنے لگے کہ آپ کا رسالہ مل نہیں رہا ہے۔
میرا جواب : "میں نے بھیجنا بند کر دیا ہے، کیوں کہ آپ خریدار نہیں ہیں، اور مفت میں ہم کب تک بھیجیں"۔
"ارے بھائی میں تو پچاسوں رسالوں کا خریدار ہوں، میں سمجھ رہا تھاکہ یہ تو ہمارا رسالہ ہے ، جب تک میں روپئے نہ بھیجوں اب آپ رسالہ مت بھیجئے گا ۔۔۔" یہ ان کا جواب تھا۔
تب جا کر 525 روپئے بینک میں جمع کروائے۔ اب خریدار ہیں اور sms کر کے کہتے ہیں کہ رسالہ مت بھیجئے۔ مطلب آپ قارئین سمجھ سکتے ہیں۔ صرف اور صرف pressure ڈالنا ہے اور کچھ نہیں۔ راشد انور راشد اتنے بڑے شاعر ہو گئے ہیں کہ ان پر مضمون آئے۔ یہ خود ستائش ہے۔ بقول شخصے :
"یہ ویسے بچے ہیں جو اپنی ماں کی پیٹ میں پورے نو مہینے بھی رہنا نہیں چاہتے"۔
یہ چاہتے ہیں کہ جتنی جلدی ہو شہرت، دولت اور عزت gain کر لیں۔ راشد انور راشد سے ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اتنی بھی جلدی کیا ہے ، آپ کو recognition ملنا ہو گا تو مل ہی جائے گا۔
قارئین کرام سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ۔۔۔
آخر یہ ہمارے ادباء و شعراء کو ہوکیا گیا ہے ؟
یہ اپنے میں اس قدر مست کیوں ہیں ؟
صرف اپنی ہی چیزیں چھپوانا اور پڑھنا اور پڑھوانا کیوں چاہتے ہیں ؟
کیوں یہ صبر کا دامن تھامنا نہیں چاہتے ؟
یہ رویہ اردو ادب کو لے ڈوبے گا ۔ یہی وجہ ہے کہ ویسی شخصیتیں ناپید ہو گئی ہیں جو اگلے دنوں میں ہوا کرتی تھیں۔ Larger than life image والی کوئی شخصیت ہمیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ اس صورت حال پر ہمیں غور کرنے کی ضرورت ہے ۔
بے شک یہ سارے نام میرے لئیے نئے ہیں مگر میں اندازہ کرسکتا ہوں کہ ایسے حالت میں مدیران کو کس قدر کوفت ہوتی ہوگی۔
جواب دیںحذف کریں