دراصل ہم اردو والوں میں publicity کا وہ جوہر نہیں ہے جو دورِ حاضر کا تقاضا ہے اور ہم میں لازمی ہونا چاہئے۔ ہمارے یہاں لوگ سورج نکلنے کی اطلاع پر بیدار نہیں ہوتے بلکہ انہیں جھنجھوڑ کر جگانا پڑتا ہے۔
بےچارے ادیب و شاعر ، پتا نہیں کن کن مشکلوں سے روپیہ اکٹھا کر کے کتابیں شائع کرواتے ہیں مگر جب کتاب چھپ کر بازار میں آتی ہے تو اس کتاب کی نکاسی ایک مسئلہ بن جاتی ہے۔
جبکہ ۔۔۔۔ اگر مصنف کے چاہنے والوں کا حلقہ وسیع ہو ، وہ دورِ حاضر کی سوشل نیٹ ورکنگ میں دلچسپی رکھتا ہو ، فیس بک ، ٹویٹر ، آرکٹ وغیرہ وغیرہ پر اس کی آمد و رفت ہو اور ایک خاص حکمت عملی اختیار کی جائے تو کتابوں کی نکاسی آسان ہو سکتی ہے۔
دیکھئے صاحب ! یہ صارفیت کا زمانہ ہے۔ عصرِ حاضر کا ہر طبقۂ فکر سے تعلق رکھنے والا انسان حقیقی معنوں میں اب صرف ایک صارف ہے۔ شرط بس اتنی ہے کہ آپ کو اپنا مال بیچنا آتا ہو ۔۔۔۔
آپ چاہیں تو مٹی کو سونے کے بھاؤ بیچ سکتے ہیں ، نہیں تو سونا بھی مٹی کی طرح پڑا رہتا ہے !
ہماری اردو اکیڈیمیاں اردو مصنفین کے لئے کیا کر رہی ہیں؟
بھیک کی طرح امداد دیتی ہیں۔ جاریہ سال کتابوں پر دی جانے والی امداد کی دوسری قسط ابھی تک جاری نہیں ہوئی ہے۔ کتابیں خریدنے اور انعامات سے نوازنے کا معاملہ تو "ہنوز دلی دور است" کا وظیفہ پڑھ رہا ہے۔ مصنفین کا حال یہ ہے کہ :
حیراں ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہوں تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں
ایسے حالات میں بھی ہماری ریاست کے وزیر اقلیتی بہبود فلمی انداز میں فرماتے ہیں :
"میں ہوں ناں"
ارے بابا ! کیا اچار ڈالیں ہم لوگ تمہارا ؟
اے نمک کے کنکر ! اے بھوک پیاس کے لڈو ! کچھ تو ہماری فکر کر ۔۔۔۔۔ ہم لوگ یادگارِ زمانہ ہیں ۔۔۔ ہماری روشن تحریروں سے تیری دنیا جگمگا رہی ہے۔ ہماری آواز کے سحر سے تیرا سورج طلوع ہوتا ہے۔ ہمارے نغموں کی شیرینی سے تیرے چاند کی کرنیں مدمست ہوتی ہیں۔ ہم نے دریاؤں کو بہنا اور پھولوں کو کھلنا سکھایا۔ ہم نہ ہوتے تو سماعتیں اور بصارتیں وحشت زدہ ہو جاتیں۔
یہ الگ بات ہے کہ افلاطون نے انسانی سماج میں ہر ذلیل سے ذلیل پیشے کو ضروری قرار دیا تھا مگر شاعری کیلئے اس میں کوئی جگہ نہیں رکھی تھی مگر ہم نے ہر دَور میں اپنے وجود اور اپنے فن کی سچائی کو منوایا ہے۔ کبھی ارسطو بن کر اور کبھی حالی بن کر ، ہم نے اپنے ہنر کے جھنڈے گاڑے ہیں ۔۔۔۔ میں تو کہتا ہوں کہ :
تو جوہری ہے تو زیبا نہیں تجھے یہ گریز
اے اقتدار کے سنچالکو !
کبھی اک نگاہِ غلط انداز اپنے سماج کے لکھنے والوں پر بھی ڈال لیا کرو۔ ہمارے لئے ایک ایسا خوشگوار نظام ترتیب دو کہ ہم گھٹ کر مرنے کے بجائے کھلی اور مہکتی فضا میں سانس لیتے ہوئے زندگی گذاریں۔
آخر میں عرض کرتا چلوں :
ہے سب کی بھوک جیسی بھوک میری
میں شاعر ہوں مگر انسان بھی ہوں
پھٹے حالوں پہ میرے چونکنا مت
جسے تم پڑھ رہے ہو میں وہی ہوں
بشکریہ : کچھ تصرف کے ساتھ ، روزنامہ اعتماد (2010-03-21) کے کالم "مرزا غائب کے قلم سے"۔
ميں چلہ کاٹوں گی اردو والوں کی کتابيں مجموعے وغيرہ کی فروخت کے ليے چلہ بھارت ميں کاٹنا ہے يا پاکستان ميں
جواب دیںحذف کریںبہت خوب لکھا ہے جناب
جواب دیںحذف کریںYeh Phaphany kutni kon hai???
جواب دیںحذف کریںکتابوں کی نکاسی تو کیا خوب ترکیب ہے جناب۔۔ باقی تو جناب المیہ ہے ہی کبھی اپنی زبان میں اچھی کتاب دستیاب نہیں ہوتی اور کبھی ہو تو خریدار ندارد۔
جواب دیںحذف کریںمذکورہ بالا تحریر اردو اور اہل اردو والوں کا مشترکہ المیہ ہے
جواب دیںحذف کریںلیکن جب تک لوگوں میں اس کے لیے بیداری نہیں آتی تب تک حکومت بھی کچھ نہیں کر سکتی
اور یہ بات بھی صحیح ہے کہ حکومت ایک سوچے سمجھے پلان کے تحت اردو کو فراموش کر رہی ہے
---- ایلکس