بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کیا ہے؟
یہ کوئی دیڑھ دو سال قبل کی بات ہے جب دلی بم دھماکوں سے دہل گیا تھا۔ آدھ گھنٹے کے وقفے میں جملہ پانچ بم بلاسٹ ہوئے۔
دھماکے 13-ستمبر-2008ء کو ہوئے اور 19-ستمبر-2008ء کو مسلح دہلی پولیس نے جامعہ نگر کے "بٹلہ ہاؤس" علاقے میں کاروائی کرتے ہوئے ، عاطف امین اور سجاد نامی دو طلباء کو دہشت گرد قرار دے کر انکاؤنٹر میں ہلاک کر دیا !!
کیا وہ طلباء دہشت گرد تھے ؟؟ کیا پولیس کی کاروائی انتقامی ، منصوبہ بند اور متعصبانہ تھی؟ اس پورے واقعے کا حقیقت پسند جائزہ جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی کے اساتذہ کی ایک مشترکہ انجمن نے 60-صفحات کے ایک کتابچہ کی شکل میں ایک سال قبل شائع کیا تھا۔ جو کہ twocircles.net پر پی-ڈی-ایف فائل کی صورت میں یہاں سے ڈاؤن لوڈ کیا جا سکتا ہے۔
ابھی کچھ دن قبل مرحومین عاطف امین اور سجاد کی پوسٹ مارٹم رپورٹ سامنے آئی ہے۔ اس رپورٹ کو سب سے پہلے آن لائن شائع کرنے کا اعزاز بھی twocircles.net کو حاصل ہے۔ یہ رپورٹ جامعہ ملیہ کے نوجوان طالب علم افروز عالم ساحل کی مخلصانہ جدوجہد سے حاصل ہوئی ہے۔
twocircles.net کی اسی آن لائن رپورٹ کی بنیاد پر ہندوستان کے اہم اور معتبر انگریزی ، ہندی اور اردو اخبارات نے اس موضوع کا بھرپور جائزہ لیا۔
پوسٹ مارٹم رپورٹ میں واضح طور سے شہادت دی گئی ہے کہ :
بندوق کی گولیوں کے علاوہ جسم پر متعدد شدید زد و کوب کے نشانات پائے گئے ہیں !
دہلی پولیس کے دعویٰ کے مطابق اگر وہ انکاؤنٹر حقیقی تھا تو پھر پولیس نے ملزمین کو اس قدر شدید زیادتیوں کا نشانہ کیوں بنایا ؟؟؟
اسی موضوع پر ممتاز صحافی عزیز برنی کا حقیقت پسندانہ جائزہ "سچ کا آئینہ" ان کے بلاگ پر ملاحظہ فرمائیں۔
اَپ ڈیٹ (UPDATE) :
روزنامہ "سیاست" (حیدرآباد) کے اتوار ایڈیشن (21-مارچ-2010) میں نامور صحافی ظفر آغا کا مضمون بھی اسی موضوع پر ملاحظہ فرمائیں :
بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر ، کئی افسانے ایک حقیقت
وہ بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو جہل کی رات سے
میں نہیں مانتا، میں نہیںجانتا
تم نے لوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمہیں کس طرح سے کہوں
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
دیپ جس کا محلات میں ہی جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
( حبیب جالب )
2010/03/23
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
Author Details
Hyderabadi
ایسے انکاؤنٹر پاکستان میں بھی آئے دن ہوا کرتے ہیں سو ثابت یہ ہوا کہ مزہب کوئی بھی ہو اگر انسانیت نہیں تو کچھ بھی نہیں!
جواب دیںحذف کریں:(
بلاشُبہ بھارت اور پاکستان ميں وہی پوليس آج تک موجود ہے جس کی داغ بيل انگريز قابضوں نے ڈالی تھی
جواب دیںحذف کریںميری چھٹی حس کہتی ہے کہ ممبئی کا واقعہ بھی اصل کچھ اور ہے اور دکھايا کچھ اور جا رہا ہے
السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
جواب دیںحذف کریںبھائی پولیس تووہی ہےلیکن بات ہے کہ ہمارےہاں ان سب کی اہم وجہ یہ ہے کہ قانون توموجودہےلیکن اس کوصحیح طریقےسے لاگونہیں کیاجاتا۔ اورلوگوں کوبھی صحیح طورپراپنےحقوق کاعلم نہیں ہے۔ اورجہاں تک مبئمی دھماکوں کی بات ہے تویہ سب ڈرامہ تھامسلمانوں کوبدنام کرنےکااوراس میں بھی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ دراصل سارےکافروں کاایک ہی منشورہےکہ مسلمانوں کواتناذلیل کرو۔کہ یہ اپنی پہنچان بھول جائے۔ اللہ تعالی ہم پررحم کرے۔ اورہم کوسچامسلمان بنائے۔ آمین ثم آمین
والسلام
جاویداقبال
بلاشُبہ بھارت اور پاکستان ميں وہی پوليس آج تک موجود ہے جس کی داغ بيل انگريز قابضوں نے ڈالی تھی
جواب دیںحذف کریںميری چھٹی حس کہتی ہے کہ ممبئی کا واقعہ بھی اصل کچھ اور ہے اور دکھايا کچھ اور جا رہا ہے
اور اس پولس کو استعمال کرنے والے بھی وہی انگریز کے غلام ہیں خاصکر پاکستان میں!
"اس پولس کو استعمال کرنے والے بھی وہی انگریز کے غلام ہیں خاصکر پاکستان میں"
جواب دیںحذف کریںدرست ہے مگر کچھ کمی رہ گئی ہے وہ يہ کہ
عوام ميں سے بھی بہت سے ابھی تک گوروں کے ذہنی غلام ہيں اسی لئے اُنہيں نہ پاکستان اچھا لگتا ہے اور نہ مسلمان
مسئلہ صرف اتنا ہے کہ کچھ لوگ صرف خود کو یا اپنے ہم خیال لوگوں کو ہی مومن اور محب وطن سمجھتے ہیں اور ایسے لوگوں کا کوئی علاج نہیں ہے!!!!!!!!!!!!!!!
جواب دیںحذف کریں:-/