فیض احمد فیض کی نعت گوئی ۔۔۔؟ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2010/04/24

فیض احمد فیض کی نعت گوئی ۔۔۔؟

فیض احمد فیض کی نعت گوئی سے متعلق ایک مراسلہ روزنامہ "انقلاب" (ممبئی) کی اشاعت 18-ستمبر-2009ء میں شائع ہوا تھا۔ مراسلہ نگار تھے جناب شمیم طارق جو کہ ادیب اور صحافی ہیں۔
یہ مراسلہ تصویری شکل میں یہاں مطالعہ فرمائیں۔

فیس بک پر اسی موضوع کے سہارے ہمارے دوست عبدالعزیز خالد صاحب نے کچھ مزید مراسلات تین مختلف نوٹس کی شکل میں لگائے ہیں :

عبدالرحیم قریشی کا مکتوب "معارف" کے نام بہ سلسلہ فیض کی نعت گوئی ...سلسلہ ایک
عبدالرحیم قریشی کے مکوب کا دوسرا حصہ بہ سلسلہ فیض کی نعت گوئی
فیض کی نعت گوئی نمـبـر دو
فیض کی نعت گوئی نمبر تین

کچھ ماہ قبل میرے ایک دوست شاداب انصاری صاحب نے شمیم طارق صاحب کا متذکرہ مراسلہ ایمیل کرتے ہوئے اس پر راقم کے تاثرات دریافت فرمائے تھے۔
ویسے تو شمیم طارق صاحب کے نظریے سے مجھے بھی اتفاق ہے کہ :
شعراء کرام نعت کے اشعار کو "نعت" کے ہی عنوان سے پڑھیں اور شائع کریں تاکہ بعد والوں کو ان کا مفہوم متعین کرنے میں دشواری نہ ہو۔

اس ضمن میں مزید خیالات میں نے فیس بک پر جو درج فرمائے تھے ، وہ یہاں بھی ملاحظہ فرمائیں کہ میرے کچھ دوست احباب فیس بک تک پہنچ نہیں پاتے۔

شمیم طارق بجا کہتے ہیں کہ :
اگر فیض نے واقعی غزل کے متذکرہ اشعار کو نعت کے شعر کے طور پر تخلیق کیا تھا تو استفسار سے پہلے ہی اس بات کا ذکر انہیں کرنا چاہئے تھا۔ مگر ۔۔۔۔ یہی نہیں کہ انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ ان کی زندگی میں شائع ہونے والے کسی مجموعہ کلام میں نعت کے عنوان سے تک کوئی شعر یا نظم نہیں ہے۔
"نسخہ ہائے وفا" نامی کلیات کے آخر میں ایک نعت ضرور ہے مگر یہ "نعت" کلیات کے اُس حصے میں ہے جو کہ غیر مطبوعہ کلام پر مشتمل ہے۔
استعارہ آمیز کلام کا مفہوم متعین کرنا عام قاری کا کام نہیں۔ اسکے علاوہ بھی نعت کی صنف اگر عقیدت و محبت اور ایمان و اخلاص کے اظہار کا نتیجہ ہے تو اس اظہار کو "نعت" کے عنوان سے کھلے بندوں ظاہر بھی کیا جانا چاہئے۔
فیض خوش نصیب ہیں کہ انہوں نے اپنی غزلوں میں نعتیہ اشعار کی نشاندہی کر دی ورنہ تو ۔۔۔ کسی دوسرے شخص کو یہ حق نہیں مل سکتا کہ وہ کسی شاعر کے شعر کو نعت کا شعر باور کرائے۔
فیض کے مقابلے میں مجروح سلطان پوری کا اعتراف دیکھئے کہ انہوں نے صاف صاف کہا : نعت کہنا بہت مشکل ہے ، میں نے کوشش کی مگر دو تین مصرعوں سے آگے نہیں کہہ سکا۔
نعت گوئی کا تعلق قادر الکلامی سے زیادہ توفیق سے ہے۔ نعت وہی کہتا ہے جس کو نعت کہنے کی توفیق عطا ہوتی ہے چاہے وہ غیر مسلم ہو۔ ہماری شعری روایت میں نہ تو ایسے مسلمان شعراء کی کمی ہے جنہوں نے عمر بھر شاعری کی مگر نعت کا ایک مصرع موزوں نہ کر سکے ، نہ ہی ایسے غیر مسلم شاعروں کی کمی ہے جنہوں نے بڑی خوبصورت نعتیں کہی ہیں۔

میرا نقطۂ نظر صرف یہ ہے کہ نعت بھی شاعری کی ویسی ہی ایک صنف ہے جیسے مرثیہ ، منقبت ، مثنوی ، مناجات وغیرہ۔
نعت کو نعت ہی کہنا چاہئے۔
آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح اور محبوب و معشوق کی شان میں کچھ فرق ہونا چاہئے یا نہیں؟
علاوہ ازیں اگر کوئی (مسلمان) شاعر ساری زندگی نعت یا حمد نہیں کہتا تو کوئی بھی یہ بھی نہیں کہے گا کہ اس کمی سے شاعر کے ایمان میں فرق آ گیا ہے۔
اور ایک بات یہ بھی کہ نعت کے نہ کہنے سے شعراء حضرات کے ایمان میں نہ کوئی فرق آتا ہے اور نہ انہیں متہم ہی کیا جاتا ہے۔
دوم یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کیوں بعد از وفات فیض کو "مومن" ثابت کرنے کی کوششیں کی جاتی ہیں؟ مرنے والا ہمارے نزدیک کلمہ گو مسلمان تھا ۔۔۔ ایک سنجیدہ مزاج اور کشادہ ذہن قاری کیلئے بس اتنا کافی ہونا چاہئے۔ باقی مرحوم کے جو بھی افکار و نظریات رہے ہوں ، اس کا حساب کتاب تو خود اللہ دیکھ لے گا۔
ہمیں اور آپ کو یہ جتانے کی ضرورت ہی کیا ہے کہ فیض نے امامت کرائی ، فیض نے درس قرآن دیا ، فیض نے نعت کہی ۔۔۔ وغیرہ۔

4 تبصرے:

  1. آپ سب لوگ اديب ہيں اور ادب سے واقف ۔ ميں بقول شخصے ايک پڑھا لکھا لوہار ہوں جو بات ميں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ايک شخص جو اللہ ہی کو نہيں مانتا تھا اُسے نعت سے کوئی غرض ہو سکتی ہے ؟

    جواب دیںحذف کریں
  2. غزل بت ھزار شیوہ -- اسکا ھر شعر دوسرے شعر سے الگ ہوتا ہے-- غالب فی الحال ایک غزل یاد اتی ہے کل کے لئے نہ کر اج کے لئے کر آج نہ خسست شراب مین:: یہ سء ظن ہے ساقی کوثر نے باب مین///آصل شہود و شاہد و مشہود ایک ہے::حیراں ہون پھر مشادہ ہے کس حساب مین////رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھئے تھمے:: نے ھاتھ باگ پر ہے نہ پاہے رکاب مین:: -- ہان تو یہ تیعن شعر ایک غزل کے اور الک الگ رنک لئے ہوئے--

    رہی نعت گوئی: جب بھی ھم درود پڑھتے ہین چاہے اذاں کے بات کی دعا (گرچہ کہ یہ ساری کی ساری درود ہی ہے) اتحیات مین درود ہو قران مین درود ہو-- سارے درود ھم اللہ سے دعا کرتے ہین کہ اللہ تو درود پہیج محمد (ص) پر- کوئی درود راست ھم سے آقا (ص) کو نہی جاتا-- ھم کیا ہین جبکہ مندرجہ بالا مثالون مین ھماری دعا ہوتی ہے (الھم )

    اللہ کی جانب سے-- ھم کیا ھمارے الفاظ کیا !! لیکن راست تعریف کا نام کس نے "نعت" رکھدیا-- اور یہ ایک صنف چل پری-- نعت گو، بعت گو شعراء اس بے ادبی سے بچنے کے لئے غالب اور فیض نے نعت کا اھتمام نہی کیا

    جواب دیںحذف کریں
  3. @ افتخار اجمل بھوپال
    محترم انکل جی۔ آپ کے وسیع مطالعے اور طویل تجربے کو نہ ماننا ناممکن ہے۔ لیکن ۔۔۔۔ کیا اس بات کا واقعتاً کوئی ثبوت موجود ہے کہ فیض نے ہمیشہ ہی اللہ کے وجود کا انکار کیا تھا اور مرتے دم تک انہوں نے اپنے اس انکار سے رجوع نہیں کیا؟
    @ AbdulAziz
    واہ واہ کیا نکتہ بیان کر دیا کہ : راست تعریف کا نام کس نے "نعت" رکھدیا-- اور یہ ایک صنف چل پڑی ۔۔۔۔۔
    اب اس طرح تو نہایت آسانی سے اردو شاعری کی تمام اصناف کا تیاپانچہ کیا جا سکے گا۔
    حضور عالی۔ میں اب بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ غالب اور فیض اور دیگر کی اس طرح کی بےتکی پشت پناہی سے اردو ادبی دنیا کو کیا تمغۂ امتیاز حاصل ہو جائے گا؟

    جواب دیںحذف کریں
  4. جناب ميرے پاس دستاويزی ثبوت تو نہيں ہے ليکن اتنا جانتا ہوں کہ اس کے مرنے تک لوگ يہی کہتے رہے اور اُس نے کبھی ترديد نہيں کی ۔ باقی دلوں کے حال تو صرف اللہ جانتا ہے ۔
    ايک اور واقعہ يہ ہے کہ وہ صاحب اپنے آپ کو کميونزم قسم کی مساوات کا علمبردار گردانتے تھے مگر اُن کی بيٹی کنيئرڈ کالج لاہور ميں پڑھتی تھی جہاں اُس زمانہ ميں صرف وڈيروں اور يورپ پرستوں کی بيٹياں پڑھتی تھيں مزيد يہ کہ شادی انہوں نے کس سے کی تھی کيا وہ کيميونزم کی حامی تھی ؟

    جواب دیںحذف کریں