حیدرآباد دکن کے ایک بہت مشہور گلوکار / موسیقار ایم۔اے۔رؤف رہے ہیں۔
ایم۔اے۔رؤف کے تعلق سے ایک خاص واقعہ یوں بتایا جاتا ہے کہ آزادی ہند سے پہلے جب آغا جانی کشمیری حیدرآباد آئے تو کسی محفل میں انہوں نے رؤف صاحب کو ثاقب لکھنؤی کی ایک مشہور غزل اپنی مرتب کردہ دھن پر گاتے سنا۔ آغا جانی دھن سے اس قدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے فوراَ اپنی فلم " تحفہ " میں اس غزل کی شمولیت کا فیصلہ کیا اور رؤف صاحب کو اس فلم کے موسیقار بننے کی پیش کش کی۔ رؤف صاحب نے اس غزل کو گانے کے لئے محمد رفیع کا انتخاب کیا مگر رفیع صاحب اس وقت کسی سبب دستیاب نہ ہو سکے۔ تب آغا جانی نے مکیش کا نام پیش کیا مگر رؤف صاحب کو بجا اعتراض تھا کہ مکیش کی آواز مکمل طور زیریں لہر میں ہوتی ہے جبکہ غزل میں آواز کا اٹھایا جانا ضروری تھا۔
مگر آغا جانی کا جب پر زور اصرار رہا تب رؤف صاحب نے دھن میں کچھ تبدیلی کی اور مکیش سے بصد اصرار آواز کو کچھ اونچا اٹھانے کی فرمائش کی۔
بہرحال وہ پہلا نغمہ رہا جس میں مکیش کی آواز اونچے سُر میں سنائی دی اور فلم کا یہی نغمہ بےانتہا ہٹ ثابت ہوا۔
ثاقب لکھنؤی کی اس غزل کے صرف چار شعر نغمے میں شامل تھے :
کہاں تک جفائیں حسن والوں کی سہتے
جوانی جو رہتی تو پھر ہم نہ رہتے
نشیمن نہ جلتا نشانی تو رہتی
ہمارا تھا کیا پھر رہتے نہ رہتے
کوئی نقش اور کوئی دیوار سمجھا
زمانہ ہوا ہم کو چپ رہتے رہتے
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے
فلم "تحفہ (1947)" کا یہ نغمہ یوٹیوب پر یہاں سنا جا سکتا ہے۔
Author Details
Hyderabadi
حیدرآباد کے رؤف بارے میں پہلی بار سنا، ہوسکتا ہے یہ گذرے زمانے کی باتیں ہیں ـ
جواب دیںحذف کریںمیں لاتعلق تحریر لکھنے پر معذرت خواہ ہوں ۔ آپ کا مشورہ مطلوب ہے ۔ اُردو زبان نے کہاں جنم لیا اور کس کس علاقے میں پروان چڑھی ؟ اس کا جواب مجھے بذریعہ ای میل بھیج دیں تو مشکور ہوں گا ۔ پتہ یہ ہے
جواب دیںحذف کریںiabhopal@yahoo.com
Excellent
جواب دیںحذف کریںHam hi so gaye dastan kehtay kehtey