یہ تیرا چہرہ جسے مثلِ ماہ تاب کہیں
عروس غزہ کی رسوائی اور وہ خاموش
یہ تیرا چہرہ جسے رشکِ صد گلاب کہیں
ستم کے ماروں کی تنہائی ، اور وہ خاموش
یہ تیرا چہرہ جسے داستان خواب کہیں
عدو نے آگ ہے برسائی اور وہ خاموش
یہ تیرا چہرہ جسے عشق کی کتاب کہیں
انہی پہ تہمتِ ہرجائی ، اور وہ خاموش
یہ تیرا چہرہ مگر اب لہو ، لہو کیوں ہے؟
انہی سے ملت بیضا کی آبرو کیوں ہے؟
جو آندھیوں سے گزرنے کی بات کرتے تھے
کہاں ہے وادئ سینا؟ کہاں ہے وادئ نور
جو خاک بن کے بکھرنے کی بات کرتے تھے
کہاں ہے آتشِ موسیٰ ، کہاں ہے شعلۂ طور ؟
فراتِ جاں پہ اترنے کی بات کرتے تھے
کہاں ہے شوقِ شہادت؟ ملیں جو حور و قصور
وہی جو عشق میں مرنے کی بات کرتے تھے
کہاں وہ مر کے بھی زندہ؟ کہاں یہ خاک قبور؟
انہیں سراب مسلسل کی جستجو کیوں ہے؟
فریب کاروں کی ہر سمت گفتگو کیوں ہے؟
شاعر : محمد مجاہد سید (جدہ)
بشکریہ : اردو میگزین (سعودی عرب)
2009/10/12
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
Author Details
Hyderabadi
جناب بہت خوب
جواب دیںحذف کریں