چوکھٹے میں بولتی تصویر
نظم مختصر سی ہے اور کچھ یوں ہے :
خباثت اُس کے چہرے سے
کبھی ظاہر نہیں ہوتی
کھرچ کر پھینک دی کس نے
ہر اک جذبے سے ہے عاری
ہمیشہ مسکراہٹ ایک جیسی
سبھی کو اُس نے ''میک اپ'' کی طرح
یکسر اُتارا ہے
''تجارت'' مشغلہ اُس کا
''مروّت'' اُس کا ایک اوزار
''محبت'' کو برتتا ہے ''کرنسی'' جان کر اکثر
بہت ہی گھاک ہے وہ اپنے پیشے میں
نظر آتا ہے کیوں مجھ کو
چوکھٹے میں بولتی تصویر
***
اس نظم کو پڑھنے کے بعد ہمارے ایک بہت ہی اچھے پاکستانی دوست رفی بھائی فرماتے ہیں :
گو کہ شاعر کا تعلق حیدرآباد دکن سے ہے مگر اس نظم کا تعلق تو سراسر پاکستان سے ہے، عموماً ہمارے داخلی معاملات میں بھی باہر والوں کے تجزیات کتنے درست ہوا کرتے ہیں، اگر سمجھ نہ آئے تو تجارت، مروت و محبت کو سیاست، صدارت، وزارت وغیرہ سے بدل کر دیکھ لیجئے
یعنی اگر پاکستانی سیاستداں کے لئے نظم کہی جائے تو کچھ یوں ہوگی ۔۔۔۔
''سیاست'' مشغلہ اُس کا
''صدارت'' اُس کا ایک اوزار
''وزارت'' کو برتتا ہے ''کرنسی'' جان کر اکثر
بہت ہی گھاک ہے وہ اپنے پیشے میں
نظر آتا ہے کیوں مجھ کو
چوکھٹے میں بولتی تصویر
مگر پاشا !! صرف پاکستانی سیاستداں کیوں ۔۔۔۔ ہندوستانی نیتا کیا کچھ کم ہیں ؟؟
دونوں ممالک کے سیاست دانوں کا حال تو یہ ہے کہ ۔۔۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
بہت خوب نظم ہے-- رہی بات محمود اور ایاز کی ہو تو شاعری میں اچھی لگتی ہے-- ورنہ چھوٹ ہے-- غلام کو کلام ہی رکھا. شاہ تو شاہ رہا--
جواب دیںحذف کریں