الوداع ریڈی گارو الوداع !!
خبر تو خیر سے پرانی ہو گئی مگر سانحہ ابھی تک ہم سب کے دل و دماغ میں تازہ ہے۔
وزیر اعلیٰ آندھرپردیش ڈاکٹر وائی۔ایس۔راج شیکھر ریڈی کو آج ان کے آبائی مقام پر سپردِ خاک کر دیا گیا۔
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
* آنجہانی ڈاکٹر ریڈی چونکہ عیسائی اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اس لئے آندھرا پردیش کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلمانوں کے درد کو سمجھتے تھے۔ ریاست کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈاکٹر ریڈی نے ہی مسلمانوں کو تعلیمی اداروں اور ملازمتوں میں 4 فیصد تحفظات فراہم کئے تھے۔
* ڈاکٹر ریڈی کی اچانک موت کا صدمہ اس قدر جانکاہ رہا کہ ریاست میں 20 افراد حرکت قلب کے بند ہونے سے چل بسے اور مختلف مقامات پر 15 افراد نے خودکشی کر لی۔ ہارٹ اٹیک سے فوت ہونے والوں میں ورنگل کے 6 اور کریم نگر کے 5 کانگریسی اراکین شامل ہیں۔
* ڈاکٹر ریڈی کی سیاسی شخصیت اس قدر متاثر کن اور مضبوط تھی کہ کانگریس کی مرکزی کابینہ کو ان کی اچانک وفات سے شدید دھچکہ پہنچا ہے۔ ڈاکٹر ریڈی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سونیا گاندھی بھی آبدیدہ ہو گئیں۔
* صدر مجلس اتحاد المسلمین بیرسٹر اسد الدین اویسی نے ڈاکٹر ریڈی کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے یاد دلایا کہ ریاست کی 50 سالہ جمہوری تاریخ میں مسلمانوں کے لئے آنجہانی ڈاکٹر ریڈی نے جتنے کام انجام دئے شائد ہی کبھی ایسا ہوا ہو۔ انہوں نے کبھی زبانی ہمدری نہیں جتائی بلکہ عملی طور پر یہ ثابت کر دکھایا کہ وہ غریبوں اور اقلیتوں کے ساتھ ہیں۔
* مرحوم سالار ملت اویسی صاحب نے سچر کمیٹی کے موضوع پر منعقدہ ایک اجلاس میں برملا کہا تھا کہ : انہوں نے اپنی پچاس سالہ عوامی زندگی میں ڈاکٹر راج شیکھر ریڈی جیسا حرکیاتی اور اقلیت دوست قائد کو نہیں دیکھا۔
* حیدرآباد پہنچ کر ڈاکٹر ریڈی کی نعش پر گلہائے عقیدت پیش کرنے والوں میں وزیر اعظم من موہن سنگھ ، صدر کانگریس سونیا گاندھی ، کانگریس جنرل سیکریٹری راہل گاندھی ، اپوزیشن لیڈر ایل کے اڈوانی ، وینکیا نائیڈو ، سیتارام پرچوری ، مرکزی وزیر دفاع اے۔کے۔انتونی ، مرکزی وزیر داخلہ پی۔چدمبرم ، وزیر اقلیتی بہبود سلمان خورشید، وزیر برقی توانائی سشیل کمار شنڈے ، دہلی وزیر اعلیٰ شیلا ڈکشٹ وغیرہ جیسی اہم سیاسی شخصیات شامل تھیں۔
* 76 سالہ ریاستی وزیر فنانس کےروشیا نے کارگذار وزیر اعلیٰ کی حیثیت سے عہدہ کے حلف لینے کے بعد کہا کہ : عام طور پر حلف لیتے ہوئے خوشی و مسرت ہوتی ہے لیکن انہوں نے بھاری دل اور بوجھل جذبات کے ساتھ حلف لیا ہے۔ کے-روشیا ریاست آندھرا پردیش کے تجربہ کار اور سینئرترین سیاست داں ہیں۔ گذشتہ مرتبہ کی ریاستی کانگریسی کابینہ میں بھی وہ وزیر فنانس رہے تھے۔
* ہرچند کہ آنجہانی ڈاکٹر ریڈی کو "عوام کا آدمی" کہا جاتا تھا۔ لیکن حیدرآباد کے نوجوانوں نے بھی خراج عقیدت کی خاطر ٹووہیلیرز پر مختلف تعزیتی ریلیاں نکالیں۔ سیاہ پرچم اور ہاتھوں میں سیاہ دھاگے باندھے ہلاکت شدہ وزیر اعلیٰ سے جذباتی وابستگی کا اظہار کیا گیا۔ اسی دن واقع ہونے والے گنیش وسرجن کے تہوار کو یکسر فراموش کر دیا گیا تھا۔
* ریاستی کانگریس کے اراکین کی ایک کثیر تعداد نے آنجہانی وزیر اعلیٰ کے فرزند رکن پارلیمنٹ جگن موہن ریڈی کو اگلا چیف منسٹر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اس کے لئے ایک زبردست مہم چلائی جا رہی ہے۔
چلیں جی اللہ مرحوم کو بخشے
جواب دیںحذف کریںپتہ نہیں حادثہ تھا یا ایک اور سازش ایک تو اچھے لیڈروں کے معاملے میں پاک و ہند بڑے بدنصیب واقع ہوئے ہیں اول تو انہیں کوئی اچھا لیڈر ملتا نہیں اور مل جائے تو یا تو یہ خود اسے اوپر پہنچا دیتے ہیں یا جوتے مار کر بھگا دیتے ہیں ورنہ کوئی حادثہ پیش آجاتا ہے،بحر حال بقول آپکے اچھے آدمی تھے تو اللہ ان کے ساتھ اچھا معاملہ کرے،آمین،
جواب دیںحذف کریں