دکنی کسی زمانے میں ہماری ادبی زبان تھی لیکن آج ہمارے گھروں میں بولی جانے والی جیتی جاگتی زبان ہے۔ ہم ۔۔۔
آہستہ کو ہلّو
نہیں چاہیے کو نکّو
چاہیے کو ہونا
اور ہاں کو ہَو
بڑے مزے سے بولتے ہیں۔
انوچ اور اینوچ، یہیچ اور وہیچ کے ذریعے مافی الضمیر کو نہایت اختصار اور جامعیت سے ادا کرتے ہیں۔ اس پر نہ کسی کو طنز کی ضرورت ہے اور نہ شرمانے کی۔ یہ ہماری علاقائی خصوصیت ہے اور ہماری پہچان۔ اگر ان الفاظ، محاوروں اور اس طرزِ ادا کو مزاحیہ انداز میں بیان کیا جائے تو ان کا لطف دوبالا ہو جاتا ہے۔ اس مزاح سے لوگوں کے دلوں کو خوش بھی کیا جا سکتا ہے اور بہت سنجیدہ اور گہرے مسائل باتوں باتوں میں سلجھائے جا سکتے ہیں۔
ہمارے موجودہ دور کے دکنی شاعروں میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ اپنی لسانی روایتوں کو زندہ رکھیں اور ساتھ ہی ساتھ عوام کی اصلاح کا بھی کام ہو جائے۔
ایک دفعہ کسی دکنی استاد کو دوسرے دکنی سے محو گفتگو سن کر کسی شمال والے نے کہا:
"آپ لوگ جو زبان بول رہے ہیں کیا اسی میں پڑھاتے بھی ہیں؟"
پٹ سے جواب ملا:
"ہم نو سیکھئے نہیں کہ کتابی زبان بولیں۔ ہم بےتکلف، ٹھیٹ اپنے لب و لہجے میں بات کرتے ہیں تو لکھنے لکھانے، پڑھنے پڑھانے میں معیاری زبان کا استعمال اتنا ہی فطری ہے جتنا بولتے ہوئے دکنی کا۔"
ہر ہوش مند آدمی جو خاص طور پر مہذب بھی ہو، فرق مراتب کی نزاکتوں کو خوب سمجھتا ہے۔ ہر ایک اپنے ماحول کی صوتیاتی انداز کا لاشعوری طور پر پابند ہے۔
***
بالا اقتباس ماہرِ دکنیات، ممتاز محقق اور استاذ الاساتذہ پروفیسر زینت ساجدہ (وفات: 5/دسمبر 2008ء بعمر 84 سال) کے ایک مضمون بعنوان "تو دکنی ہے پیارے، تو دکھنیچ بول" سے ماخوذ ہے جو طنز و مزاح کے ممتاز دکنی شاعر حمایت اللہ کے واحد مجموعہ کلام "دھن مُڑی" میں شامل رہا ہے۔
اگر آپ نے راقم الحروف مکرم نیاز کی ٹائم لائن کی تحریروں کو پڑھا ہے تو یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اکثر اوقات دکنی الفاظ و اصطلاحات کے استعمال میں کوئی جھجھک نہیں برتی جاتی۔ اس کا سبب وہی ہے جس کی طرف مرحوم پروفیسر صاحبہ نے اشارہ کیا ہے کہ ہر ذی شعور قلمکار انفرادی سطح پر اپنی لسانی روایات کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
علاوہ ازیں۔۔۔ اگر آپ مجھ سے شخصی طور پر ملاقات کریں تو دوبدو کی گفتگو میں آپ کو وہ الفاظ و لہجہ نہیں ملے گا جو میری تحریروں کا خاصا ہے بلکہ آپ کو حیدرآباد دکن کے ایک عام شخص کی روایتی بولی و لہجہ کو سننے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔
یہ کوئی مجھ اکیلے کی خاصیت نہیں بلکہ حیدرآباد (دکن) کے تقریباً ہر اس فرد کی عمومیت ہے جو یہاں کا اصل باشندہ رہا ہو یا جس نے یہاں طویل عرصہ کی بودوباش اختیار کی ہو۔
بطور حوالہ چند ماہ قبل کا ایک ٹوئٹ بھی ملاحظہ فرمائیں جو تلنگانہ میں برسراقتدار حکومت کے وزیراعلیٰ کے۔سی۔آر کے فرزند اور عزت مآب وزیر بلدی نظم و نسق و انفارمیشن ٹیکنالوجی کے۔ ٹی۔ راما راؤ نے دکنی لسانی شناخت کے ثبوت میں پیش کیا تھا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں