ریاض سعودی عرب کی سردیوں کے دن : ایک دلچسپ یاد - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2023/01/06

ریاض سعودی عرب کی سردیوں کے دن : ایک دلچسپ یاد

masjid-e-haram-makki

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
6/جنوری/2023ء
*****


#جمعہ_مبارک


شہر میں اچانک سردی کی لہر نے زور پکڑا ہے، شاید ملک کے بیشتر علاقوں کا حال بھی کچھ ایسا ہی سرد اور کہر آلود ہے۔
پرانے شہر میں آج صبح دس بجے کے قریب درجۂ حرارت 20 سلسیس بتا رہا تھا۔ مجھے یکایک ریاض کی سردیوں کا زمانہ یاد آ گیا جہاں دوپہر دو بجے بھی دس تا پندرہ ڈگری سنٹی گریڈ ٹمپریچر ہوا کرتا تھا۔ سال 1996ء کے موسم سرما میں رمضان کا آغاز غالباً ماہ جنوری میں ہوا تھا۔ ہم چند دوست صفر درجۂ حرارت سے بھی نیچے والی کڑاکے کی سردی میں رات تین ساڑھے تین بجے سحر کے لیے ہوٹل کی طرف نکلتے تھے، تین چار گرم کپڑوں کے باوجود لگتا تھا کہ سردی ہڈیوں میں گھسی جا رہی ہے۔


انہی دنوں (سنہ 1996ء) کا ایک دلچسپ واقعہ یاد آیا۔
کسی بڑے ادارے کے ایک انجینئرنگ ڈیزائن سیکشن کی ابتدا ہوئی تو وہاں اتفاق سے ایک دوست کی سفارش پر جاب مل گیا۔ سیکشن ہرچند کہ فل ٹائم تھا لیکن بیشتر اہلکاروں کی ڈیوٹی پارٹ ٹائم تھی یعنی شام 4 سے 7 تک۔ فل ٹائم میں صرف تین نفوس، ایک تو کمپنی کے سعودی ڈائرکٹر آرکیٹکٹ عبدالعزیز، کمپنی ایڈمنسٹریٹیو سکریٹری میرا یہی دوست اور بطور سول انجینئر یہ ناچیز۔ ہماری صبح کی ڈیوٹی صبح ساڑھے آٹھ تا دوپہر ڈیڑھ بجے تھی، پھر شام کی ڈیوٹی دیگر تمام پارٹ ٹائمرز کے ساتھ شام 4 سے 7 تک۔
اب ڈیڑھ بجے سے شام چار بجے کا وقت گزارنے ہم دونوں دوست اپنے رہائشی علاقے "حارہ شریف" کو تو جاتے نہیں تھے بلکہ ہوٹل سے لنچ منگوا کر وہیں آفس میں آرام کر لیا کرتے تھے۔ کئی منزلہ رہائشی عمارت کے نوویں فلور کے دو فلیٹوں میں ہمارا دفتر قائم تھا۔ غضب کی سردیاں تھیں اور ٹاپ فلور ہونے کے سبب دن میں بھی اچھی خاصی سردی محسوس ہوتی تھی۔ بہرحال دن کی شفٹ جیسے ہی ختم ہوتی، ہمارے سکریٹری دوست، ڈائرکٹر صاحب والے آفس کا فلیٹ لاک کر دیتے اور ہم دونوں دوسرے فلیٹ کے ایک کمرے میں ہیٹر آن کر کے گھر سے لائی رضائی اور تکیہ میں انٹاغفیل ہو جاتے۔


ایک دن اچانک کھٹ پٹ کی آواز پر آنکھ کھلی۔ غنودگی کی حالت میں ایک آنکھ میچ کر رسٹ واچ میں وقت دیکھا تو سوا چار ہو رہے تھے اور ادھر سعودی ڈائرکٹر صاحب، ہمارے دوست کو آواز دے دے کر دریافت کر رہے تھے: یا احمد، وئیر آر دی کیز؟
پھر میں نے اسی حالتِ غنودگی میں، ادھ کھلی آنکھ سے دیکھا کہ ہمارے دوست صاحب نے آں اوں ہوں کہہ کر تکیے کے نیچے سے فلیٹ کی چابی نکالی اور آنکھیں بند کیے کیے ہی ڈائرکٹر صاحب کو تھمائی، پھر دوسری کروٹ بدل کر دوبارہ خراٹے شروع۔
ڈائرکٹر صاحب کے چہرے پر حیرانی اور مسکراہٹ کا امتزاج تھا۔ مگر انہوں نے نہ اس وقت کچھ کہا اور نہ بعد میں کبھی۔
یہ تو مجھے بہت بعد میں معلوم ہوا کہ ڈائرکٹر صاحب برصغیر کے بیشتر شہروں کا دورہ کر چکے ہیں اور تقریباً ہر بڑے شہر کے باشندوں کے مزاج سے واقفیت رکھتے ہیں۔ یقیناً انہوں نے سوچا ہوگا:


یہ حیدرآبادی نواباں ایسی ائیچ ہوتے، کبھی نئیں سدھرتے!!


نوٹ:
تصویر کا تعلق تحریر سے بس جمعہ مبارک کی حد تک ہے۔ یہ میں نے فروری 2012ء میں اپنے موبائل سے لی تھی۔ حرم مکی کے باب عبدالعزیز کے رخ کی ہے۔


The winter days of Riyadh, Saudi Arabia.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں