دھنک کے ساتویں رنگ کی چمک - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2022/04/21

دھنک کے ساتویں رنگ کی چمک

cham-cham-sweets

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
21/اپریل/2022
*****

حیدرآباد میں ساتویں سال کے قیام کا آغاز


چھ سال قبل ٹھیک آج ہی کے دن صبح 9 بجے راجیو گاندھی انٹرنیشنل ائرپورٹ پر سعودی ائرلائنز کی فلائٹ سے حیدرآباد میں آمد بلکہ بقول #مرزا کے، "گھر واپسی" ہوئی تھی، اپنے وطن میں مستقلاً قیام کی خاطر۔
سعودی مقامی وقت کے مطابق فلائٹ ساڑھے بارہ بجے رات تھی۔ اور ایک دوست نے رائے دی تھی کہ 24 گھنٹے قبل سعودی ائرلائنز کے کسی قریبی دفتر میں سامان جمع کروانے کی جو سہولت دستیاب ہے، اس سے استفادہ کر لیا جائے۔ ورنہ ائرپورٹ پر اپنے پانچ بھاگتے دوڑتے، چیں چاں چوں چوں کرتے لڑتے جھگڑتے طیور کے ساتھ سامان بھی سنبھالنا بڑا ہی مشکل امر ہوگا۔


دفتر میں آخری دن تھا، دوپہر میں ہم یہ کہہ کر نکلے کہ شام پانچ سے قبل لوٹ رہا ہوں مگر تقریباً چھ بج گئے، دفتر خالی ہو چکا تھا۔ سب کے ڈیسک پر تھینک یو، گڈ بائے کے نوٹس چسپاں کیے، اپنے کمپیوٹر سے ذاتی استعمال کے تمام سافٹ وئرز اَن-انسٹال کیے، تمام پرسنل ڈیٹا پرسنل ایکسٹرنل ہارڈ ڈسک میں کٹ/پیسٹ کیا، کمپیوٹر کو گیارہ/بارہ سال قبل کی صاف ستھری پاکیزہ حالت پر لوٹایا، اور آخری بار حاضری مشین میں تھمب پنچ کرکے یہ سوچتے نکل گئے کہ اب اگلے دن کی حاضری کی روایت کا آغاز اپنے ملک کے دفتر میں ہوگا۔
دوسرے دن چھوٹے بھائی کے ساتھ تقریباً بارہ بجے حکومت تلنگانہ کے سرکاری دفتر میں پہنچے تو جوائننگ لیٹر پر اہلکار نے دستخط کروا لیے، پھر کہا کہ اپنے سرٹیفکیٹس شو کیجیے۔
"ارے کتنے بار کرنا بھائی؟ ایک بار تحریری امتحان میں سلیکشن کے بعد، دوسری بار انٹرویو بورڈ کے سامنے، تیسری مرتبہ محکمہ کے مرکزی دفتر میں ۔۔۔"
ٹھنڈے لہجہ میں جواب ملا: "ان لوگوں نے اپنی اپنی ذمہ داری نبھائی، اب ہم اپنی نبھائیں گے"۔
بہرحال دو ماہ تو دفتر میں ایسے گزرے کہ بیٹھنے کو کرسی نہیں، کیبن ملنا تو دور کی بات۔۔۔ کبھی ادھر کرسی خالی دکھی تو وہاں پسر گئے تو کبھی یہاں۔ مارے گرمی کے دیوار یا چھت پر اے۔سی کی تلاش میں نظر دوڑائی تو گھوں گھوں کرتے نظام سرکار کے زمانے کے تین پتی پنکھے یہاں وہاں، ادھر ادھر نظر ضرور آتے مگر ٹھنڈی ہوا ندارد۔


دفتر کے اوقات کار بھی لمبے عرصے تک سمجھ سے پرے رہے۔ وہاں تو صبح آٹھ بجے دفتر میں موجود رہنا پڑتا تھا۔ اسی عادت کے سہارے صبح ساڑھے سات بجے تیار ہو کر ناشتے کی میز پہنچتے تو نصف بہتر محبت سے پیٹھ پر تھپکی دے کر فرماتیں:
"کیا کرتے؟ جھاڑو لگاتے اِتّا جلدی جاکے؟"
مارے جھلاہٹ کے، پہنا لباس اتار کر، دوبارہ گھنٹہ بھر کی نیند کی خاطر بستر پر چلے جانا پڑتا۔


پہلے ہی ہفتے مرزا دفتر پر آ دھمکے تھے۔ تقریباً آٹھ دس سال بعد دوبدو ملاقات ہوئی تھی۔ کیونکہ سالانہ چھٹیوں میں حیدرآباد آمد پر دونوں طرف کی کسی نہ کسی وجہ سے ملاقات سے محرومی ہی رہی، بس واپسی پر مرزا سارا نزلہ نت نئی گالیوں کی شکل میں فون کے ذریعے انڈیل دیتے۔
بہرحال مرزا نے ملتے ہی سوال داغا تھا:
"کیسا آرا جارا؟"
"کیب سے آرؤں یارو، اور کیسے آؤں؟" مسکین شکل بنا کر جواب دیا۔
"بھر گئی ہے تیری؟"
مرزا نے پان تھوک کر کہا اور میرے چہرے پر زلزلے کے آثار ابھرتے دیکھ جلدی سے آخری لفظ کہہ کر جملہ مکمل کیا:
"جیب!"


پھر مرزا نے بس کا نمبر اور روٹ بتایا جو گھر کی گلی کے سامنے مرکزی سڑک کے بس اسٹاپ سے نکلتی تو سیدھے دفتر کے قریب واقع بس اسٹاپ پر چھوڑتی۔ کرایہ صرف پندرہ روپے۔ جبکہ کیب کا یکطرفہ کرایہ ڈھائی سو روپے تھا۔
یوں پورے دو مہینے تک مرزا کی ہدایت پر کہ:
آسمان سے زمین پر اترے ہو تو زمین والوں کا سلیقہ سیکھو!
کے ناتے اپنی زمین اور زمین کے لوگوں سے نہ صرف رابطہ استوار کیا بلکہ۔۔۔ شرطہ (پولیس والا) کو دیکھ کر بدکنا چھوڑا، ریال کی جگہ روپے بولنا سیکھا ونیز ریال/روپے کا بار بار کا کیلکولیشن بند کیا، میاہ کو پانی اور اشارہ کو سگنل کہنا شروع کیا ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔
دو ماہ بعد ٹووہیلر لی۔ پٹرول اس وقت تقریباً 60 روپے فی لیٹر تھا۔ پرسوں مرزا سے شکوہ کیا کہ ان چھ برسوں میں پٹرول کی قیمت ڈبل ہو گئی ہے۔ تو مرزا نے چمک کر جھاڑ پلا دی: سچ سچ بول، تنخواہ بھی ڈبل ہوئی کہ نہیں؟
مرزا کو یاد دلانا پڑا کہ خواتین سے ان کی عمر اور مردوں سے ان کی تنخواہ پوچھنا شدید حرام ہے!


حسب روایت تحریر کے ساتھ میٹھی تصویر بھی منسلک ہے۔ وہ کیا ہے کہ نصف بہتر کی ہدایت پر افطار کی ڈش لگانے سے پرہیز کیا جا رہا ہے، پرسوں ہی حیدرآبادی خواتین کا مخصوص روایتی مکالمہ سننے کو مل گیا تھا: "نظر لگ جاری جی"۔
جو بھی بندہ تصویر/تحریر دیکھتا، حیدرآباد آ رؤں حیدرآباد آ رؤں کا رٹا لگانا شروع کر دیتا، ماشاءاللہ، چشم بددور، سبحان اللہ، کہنا تو یار لوگوں نے جیسے ختم ہی کر دیا۔
یہ حیدرآباد کی مشہور مٹھائی "چَم چَم" ہے۔ مگر مرزا کا کہنا ہے کہ اصل نام "چن چن چو" تھا جس پر قمر جلال آبادی نے نغمہ بھی لکھا تھا: میرا نام چن چن چو / چن چن چو بابا چن چن چو / رات چاندنی میں اور تو / پھونک دوں منتر چھو چھو چھو!
لیکن مرزا کو یہ مٹھائی قطعاً پسند نہیں، جب بھی وجہ پوچھنا چاہی، وضاحت کرنے کے بجائے صرف یہی بولتے:
"شکل فحش ہے!!"


Work Anniversary, a light essay by Mukarram Niyaz.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں