مکتب و محراب کا مثالی پاسباں - مولانا حافظ محمد بن عبدالرحمن الحمومی - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2022/02/18

مکتب و محراب کا مثالی پاسباں - مولانا حافظ محمد بن عبدالرحمن الحمومی

Maulana Mohammed Bin Abdur Rahman Al-Hamoomi

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
18/فروری/2022
*****

"قوموں کا تہذیبی سرمایہ کتابوں کے سہارے سے ہی آئندہ نسلوں کی میراث قرار پاتا ہے"۔
اس قولِ زریں کی اہمیت و افادیت سے آگہی تو برسوں سے رہی ہے مگر پچھلے دنوں ایک کتاب کے دورانِ مطالعہ اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ آج کی نوجوان نسل کو یہ مقولہ ذرا تفصیل سے سمجھایا جانا چاہیے۔


مگر اس سے پہلے کچھ دیگر باتیں۔
کچھ برس قبل جب احقر کا رجحان سائبر دنیا میں تبلیغِ دین کی جانب زور و شور سے رہا تھا تب دینی مذہبی کتب کے مطالعے کی یلغار میں دلچسپی کا بیشتر عنصر علمی و مذہبی شخصیات کی حیات و خدمات رہیں مثلاً: امام ابن تیمیہ، حسن البنا، مولانا مودودی سے لے کر سید قطب، علامہ البانی، علامہ احسان الہی ظہیر، یوسف القرضاوی، زبیر علی زئی، صفی الرحمٰن مبارکپوری، مولانا علی میاں وغیرہ وغیرہ جیسے متعدد اسمائے گرامی۔ چونکہ سعودی عرب میں قیام تھا لہذا ایسی (اردو) کتب کی حصولیابی میں بھی آسانی رہی۔ مگر پچھلے 6 برسوں کے دوران، یعنی انڈیا مستقلاً واپسی کے بعد سے اس قسم کی کتب کے مطالعے میں بوجہ کمی آ گئی۔ اس میدان کی بمشکل تمام کوئی پانچ چھ کتب اس دوران نظر سے گزری ہیں جن میں سے دو تو اس وقت مطالعہ کی میز پر موجود ہیں، یعنی استاذئ مکرم ابوالقاسم فاروقی کی "علامہ ابوالقاسم سیف بنارسی - حیات و خدمات" اور قاضی اطہر مبارکپوری کی "دیار پورب میں علم اور علما"۔ ایک اور اہم کتاب جو اس ناچیز کی پسندیدہ علمی/دینی شخصیت اور محبوب مصنف حافظ صلاح الدین یوسف کی حیات و خدمات پر ممبئی کے ہمارے نوجوان عالم فاضل دوست ابوالمیزان نے مرتب کی ہے، اس میدان میں نمایاں مقام رکھتی ہے، گو کہ ابھی تک اس کے حصول سے محروم رہا ہوں۔


کچھ دن قبل ہمارے ایک عزیز دوست مصطفیٰ سروری بھائی (پروفیسر مصطفی علی سروری، اسوسی ایٹ پروفیسر ماس کمیونکیشن اور جرنلزم، مانو) نے ایک کتاب تحفتاً پیش کی۔ تقریباً تین سو صفحات کی اسی مفید اور یادگار کتاب کی تصویر اس تحریر سے منسلک ہے۔ کتاب کا نام ہے:
"مکتب و محراب کا مثالی پاسبان (حضرت مولانا حافظ شاہ محمد بن عبدالرحمن الحمومی)"
وقفہ وقفہ سے اس کتاب کے مطالعے نے مزاج پر وہی اثرات طاری کیے جو متذکرہ بالا حیات و خدمات طرز کی کتب کے مطالعے کے دوران پیدا ہوا کرتے تھے۔ وہ اثرات کیسے ہوتے ہیں؟
اسے جاننے سے قبل، اسی کتاب سے اخذ شدہ مولانا حافظ مرحوم کی وصیت کا یہ فقرہ پڑھیے:

"دین کے خدمت گزار کے لیے ضروری ہے کہ وہ کچھ اوقات ایسے فارغ کرے جس میں وہ خلوت گزینی کر سکے۔ تنہائی میں اللہ سے اپنی روح جوڑ سکے اور ارد گرد کی مضطرب زندگی اور مذموم اخلاق کی کدورتوں سے اپنے نفس کا تزکیہ کر سکے۔ اس طرح کی خلوتیں آپ کو محاسبۂ نفس کی دعوت دیں گی"۔

دوسروں کی طبعیت کا تو مجھے علم نہیں مگر اس ناچیز کا تجربہ ہے کہ اسی طرز کی خلوت گزینی کے دوران دین کے (حقیقی) خدمت گزاروں کی حیات و خدمات کا مطالعہ، ان پر غور و فکر اور پھر مقدور بھر عمل بھی ایک عامی کو اپنے تزکیہ نفس کی سمت لے جاتا ہے۔


حضرت مولانا حافظ شاہ محمد بن عبدالرحمن الحمومی (پیدائش: 1940ء) المعروف بڑے مولوی صاحب کون تھے اور ان کی کیا دینی خدمات رہی ہیں؟ ان سے واقفیت سے قبل حیدرآباد کی دو مشہور و معروف مساجد کا ذکر ضروری ہے۔
1) شاہی مسجد (باغِ عامہ، متصل تلنگانہ ریاسی اسمبلی عمارت) جو کہ 1923ء میں تعمیر ہوئی تھی اور جہاں آصف سابع، نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان نماز جمعہ کی ادائیگی کے لیے تشریف لاتے تھے۔ یہ مسجد آج بھی اسی شان سے قائم و دائم ہے۔
2) جامع مسجد معظم پورہ جو شہر حیدرآباد کے مشہور اقلیتی تعلیمی ادارہ انوارالعلوم (ملے پلی) کے قریب واقع ہے اور جہاں سے اتواریہ دینی درس کے ذریعے ماضی قریب و بعید میں نوجوان نسل کی ایک معتد بہ تعداد نے اخلاقی، علمی و دینی تربیت حاصل کی تو دوسری طرف اس کے منفرد شعبۂ حفظ سے متعدد طلبا نے عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ حفظ قرآن کی تکمیل کرتے ہوئے ملک و بیرون ملک نام کمایا ہے۔


بڑے مولوی صاحب کے والد ماجد علامہ عبدالرحمن بن محفوظ الحمومی الیمنی کو آصف سابع نے شاہی مسجد باغِ عامہ کا سب سے پہلا خطیب مقرر کیا تھا۔ والد کے انتقال کے بعد خطابت کی یہ ذمہ داری بڑے مولوی صاحب کو 1977ء میں منتقل ہوئی جو 2014ء تک تسلسل سے جاری رہی۔ ونیز بڑے مولوی صاحب نے جامع مسجد معظم پورہ میں 1962ء سے 1977ء تک تقریباً پندرہ سال خطابت کی ذمہ داری نبھانے کے علاوہ 1962ء سے 2007ء تک یعنی 45 سال اسی جامع مسجد معظم پورہ میں امامت کا فریضہ بھی نبھایا ہے۔ جامع مسجد میں شعبۂ حفظ کا قیام بڑے مولوی صاحب ہی کے ذریعے مئی 1966ء میں عمل میں آیا تھا جس کی دلچسپ روداد و تاریخ پروفیسر سروری نے متذکرہ کتاب کے اپنے مضمون میں بیان کی ہے۔


یہ مفید اور یادگار کتاب "مکتب و محراب کا مثالی پاسبان" بڑے مولوی صاحب یعنی مولانا محمد بن عبدالرحمٰن الحمومی کی حیات و خدمات کا تقریباً 65 مضامین کے ذریعے احاطہ کرتی ہے۔ فی زمانہ ملت کی کسی ممتاز و معتبر شخصیت پر تحریرکردہ خاکے اگر جمع کرنے بیٹھیں تو بیس پچیس سے زیادہ کا جمع ہونا بہت مشکل امر ہے۔ اب ایسے میں 65 مضامین پر مشتمل کتاب ظاہر ہے کہ ممدوح کی مقبولیت کا واضح بیان ہی کہلائے گی۔
کتاب کے مرتبین مصطفی علی سروری اور حافظ خواجہ واسع احمد ہیں جو بجا طور پر تعریف و توصیف کے مستحق ہیں۔ متذکرہ شعبۂ حفظ کی انجمن طلبائے قدیم کے ایک سابق صدر سید ضیاء الدین (ایم۔ٹیک، سابق ڈائرکٹر ایچ۔ایم۔ڈی۔اے) لکھتے ہیں کہ: استاذئ محترم کی طویل خدمات کے اعتراف میں اور اس یادگار کتاب کے اجرا کی خاطر 21/مارچ 2021ء کو تہنیتی تقریب کی تاریخ تجویز ہوئی تھی مگر بروز جمعہ 12/فروری 2021ء کو استاذ محترم نے داعئ اجل کو لبیک کہا۔ اپنی ساری زندگی قرآن کی خدمت کرنے والے استاد محترم شاید جہاں اس تہنیت کے محتاج نہیں تھے وہیں یقیناً انہیں یہ پسند بھی نہیں تھا کہ جو کام انہوں نے خدائے تعالیٰ کو راضی کرنے کے لیے کیا، اس کے حوالہ سے بندوں سے تہنیت وصول کریں۔


کتاب میں ہر شعبہ حیات سے وابستہ معروف و غیرمعروف محبان و شاگردان، ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی پروفیشنل، آرکیٹکٹ، پروفیسر، ماہر معاشیات کے علاوہ مولانا مرحوم کے اہل خانہ کے تحریرکردہ مضامین شامل ہیں۔ ملک و بیرون ملک کی ممتاز شخصیات جیسے مولانا شاہ جمال الرحمن، مفتی حافظ صادق محی الدین فہیم، مفتی محمد قاسم صدیقی، پروفیسر حمید اللہ غوری، حافظ سید ضیاءالدین، حافظ خواجہ واسع احمد، ڈاکٹر محمد عبدالرحمن، حافظ خلیل اللہ زبیر، سید نورالدین حیدری، ڈاکٹر شیخ عبدالقدیر وغیرہم نے اپنے پرفکر مضامین کے ذریعے مرحوم کی زندگی اور علمی و دینی خدمات کے متعدد گوشوں کو اجاگر کیا ہے۔
لیکن ایک چھوٹی سی کمی کا احساس بھی ہوتا ہے۔ زمرہ وار تقسیم کے ساتھ مضامین کی مناسب درجہ بندی نہیں کی گئی ہے۔ اعلیٰ و ادنیٰ، معیاری و معلوماتی، غیر معمولی و معمولی، جذباتی و تاثراتی، عمومی و خصوصی طرز کی تمام ہی تحریروں کو ایک ہی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے۔ جس سے ایک عام قاری کو پریشانی لاحق ہوتی ہے کہ وہ کسے ترجیح دے اور کسے موخر کرے۔


حافظ صاحب کے بڑے فرزند (مولانا حافظ حسن) نے اپنے والد کی حیات و خدمات کے مستند تذکرے کو ایک جامع مضمون کے سہارے سمیٹا ہے۔ ان کا یہ لکھنا عین بجا ہے کہ حضرت مرحوم نے شاہی مسجد باغ عام کو جس طرح مسلکی تنازعات سے دور رکھا اور پرآشوب اور فتنوں کے دور میں مسجد کو کسی خاص جماعت یا ادارے کے تسلط سے بچایا ہے، یہ واقعتاً اہل ہند کے لیے قابل تقلید معاملہ ہے۔
حافظ صاحب کے دوسرے فرزند (حافظ محسن) نے دلچسپ پیرائے میں اپنے والد مرحوم کی مختصر سوانح اور ان کی درون خانہ سرگرمیوں کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ان کے والد نے اپنی تمام اولاد (3 فرزندان و 6 دختران) کی عصری تعلیم پر توجہ دینے کے علاوہ تینوں فرزندان کو حفظ قرآن اور تمام دختران کو باضابطہ عالمیت کا کورس کرایا۔ امامت و خطابت سے ملنے والے اعزازیہ کو اپنی ذات یا اولاد کی کفالت کے بجائے خدمتِ دین کی مد میں ہی خرچ کیا۔
حافظ صاحب کے تیسرے فرزند (حافظ احسن) نے والد مرحوم کے آخری دور اور آخری لمحات کو کافی پرتاثر انداز میں یوں قلمبند کیا ہے کہ پڑھنے والے کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔


کتاب میں ایک وقیع ناصحانہ مضمون بھی شامل ہے جو دراصل مولانا حافظ محمد بن عبدالرحمن الحمومی کی اپنے فرزندان اور وابستگان کے نام وصیت نامہ کا خلاصہ ہے۔ یہ پیغام آج کے ہر نوجوان داعئ اسلام کے لیے رہنما منشور بھی ہے۔ اس کا ایک موثر اقتباس ملاحظہ کیجیے:

"مبلغین اسلام اپنے مقام کو پہچانیں۔ وہ قوم کے قائد اور رہبر ہوتے ہیں۔ اور دعوت کی مرکزیت اور اس کی قیادت کا اہل وہی ہو سکتا ہے جو ہوش مند، بیدار مغز اور واقف حال ہو۔ اسی طرح داعئ دین کو تجربات زندگی اور عوام الناس کے معاملات سے واقفیت حاصل کر کے اللہ کے اس قول کی منشا پوری کرنی چاہیے: اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت و حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ"۔

علمی دینی و ادبی شخصیات پر ایسے مضامین یا کتب کی ضرورت آج بھی ہے اور ہر دور میں رہے گی۔ تصنیف و تالیف کے میدان میں دلچسپی و مہارت رکھنے والے قلمکاروں کو اس جانب بھرپور توجہ دینی چاہیے۔ جیسا کہ اسی کتاب کے اپنے مضمون میں جامع مسجد معظم پورہ کے موجودہ خطیب مولانا شاہ جمال الرحمن صاحب لکھتے ہیں: احادیث مبارکہ میں یہ بات آئی ہے کہ اپنے گذرے لوگوں کی اچھائیوں کا ذکر کرو۔ ان کے محاسن اور کارناموں کا تذکرہ کرو۔ ان کے مشن کی یاد ان کے جانشینوں، شاگردوں کے لیے مشعل راہ کا کام انجام دے گی۔


میں اپنے عزیز و محترم دوست پروفیسر مصطفیٰ سروری کا شکرگزار ہوں کہ انہوں نے ایک ایسے بیش قیمت تحفہ سے نوازا جس کے ذریعے اپنی فرصت کے کچھ اوقات کو میں کارآمد بنانے میں کامیاب رہا۔


Maktab wa Mehrab ka misali Pasban - Maulana Mohammed Bin Abdur Rahman Al-Hamoomi. A book edited by: Hafiz Khwaja Wasey Ahmed and Mohammed Mustafa Ali Sarwari. Review by: Mukarram Niyaz.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں