© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
15/جنوری/2022
*****
مہمان خدا کی رحمت ہوتے ہیں۔ مہمان گھر آئیں تو بہتر سے بہترین میزبانی مشرقی تہذیب کی روایات میں شامل ہے۔ کم از کم اس ناچیز کا برسہا برس کا خاندانی مشاہدہ ہے کہ دور دراز کے قریبی عزیز کچھ مدت کے قیام کے لیے ہمارے گھر تشریف لائیں تو اندر محفوظ تمام کراکری کا سامان دھو پونچھ کر نکالا جاتا ہے۔ برتن، مشقاب، رکابیاں، پیالیاں، طشتریاں، کٹوریاں، گلاس، چمچے وغیرہ۔ چاہے والدہ ہوں، دادی ہوں، پھوپھی چاچی ہوں، ہر ایک کے گھرانے میں یہی دیکھا کہ عام گھریلو استعمال کی اشیا الگ اور مہمانوں کے لیے پیش کیا جانے والا سامان الگ ہوتا ہے۔
حالانکہ یہ بات آج کی نسل کو سمجھ میں نہیں آتی۔ بلکہ آج کیوں ہر دور کی جواں نسل یہ بات سمجھ نہیں پاتی۔ ان کے نزدیک یہ بےجا تکلف یا غیرضروری دکھاوا ہے ۔۔۔ یا پھر بقول بشیر بدر:
مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو کہا نہیں وہ سنا کرو، جو سنا نہیں وہ کہا کرو
کل جو میرے بڑے بیٹے نے یہی "دکھاوا" والا طعنہ اپنی ماں کو دیا تو برسوں پہلے یہی شکوہ خود میں نے بھی اپنی والدہ سے کیا تھا۔
پچھلے دنوں عزیزترین دوست جاوید نہال حشمی تشریف لائے تو ڈائننگ ٹیبل پر انہی کے ہمراہ ناشتہ/ظہرانہ/عشائیہ کا اہتمام رہا۔ ایک بار کھانے کے دوران ایسا ہوا کہ پانی کا جگ اٹھانے کی میری جلدبازی میں جگ کا کونہ گلاس کے کسی نازک اندام حصہ کو لگا اور کرررچچچ کی آواز کے ساتھ ایک گلاس شہید ہو گیا!!
مجھ غریب کی اتری ہوئی صورت دیکھ کر میرے ہمدم، ہمراز، دیرینہ فیملی فرینڈ جاوید نے پچکارا۔ مدھم آواز میں سرگوشی کرتے ہوئے بولے:
"یار! کہہ دے جاوید کے ہاتھوں سے ٹوٹ گیا۔ تو بچ جائے گا۔"
مگر بچارے جاوید کو حیدرآبادی خواتین کے مزاج کا حال بھلا کیا معلوم؟ کسی نجی چینل پر پڑوسی ریاست کے کسی گھرانے میں میاں بیوی کی چخ پخ والی چٹخارے دار خبر نشر ہوتی ہے تو یہاں بیوی اپنے شوہر کو گھور کر دیکھتی ہے۔
بلکہ میرے دوست #مرزا تو یہاں تک کہتے ہیں کہ:
اماں! ان لوگوں کا کیا بھروسہ پاشا؟ بیڈن یا پوٹن کسی ملک پر حملے کا فیصلہ کر لیں تو ادھر اپنی بی بیاں اپن کو گھور کر ایسے دیکھتیں جیسے ان دونوں کمبختوں کو اکسانے میں ہمارا ہی ہاتھ ہو!
بہرحال ایک گلاس ٹوٹنے کی بات آئی گئی ہو گئی۔
مگر کل کی دعوت میں گلاس کا ایک نیا سیٹ کھولتے بیگم کو دیکھا تو حیران ہو کر پوچھ لیا:
ایں؟ ایک گلاس کم ہونے پر دوسرا نیا سیٹ؟
بیگم مسکرائیں اور بولیں:
"ارے ہاں جی! آپ کو بتانا بھول گئی تھی۔ وہ جو آپ کے دوست واپس گئے تھے ناں، تو دوسرے دن سیٹ میں تمام گلاس محفوظ کر کے کچن کے کپ بورڈ میں رکھنے، کام والی ماسی کو دیا تو اس کا ہاتھ پھسلا، وہ بھی گری اور گلاس کا سیٹ بھی نیچے گر کر ریزہ ہو گیا"۔
گھر میں گلاس گرے یا سڑک پر بم پھوٹے، پیسے تو غریب کی جیب سے ہی جاتے ہیں ناں۔ لہذا دانت کچکچا کر پوچھا:
"پھر دئے ماسی خالہ کو دبا کے کوئی گولی؟"
بیگم نے روایتی طیش والی نگاہ سے گھور کر دیکھا، دوپٹہ کمر کے گرد کس کر لپیٹا اور مجھ غریب کی آواز سے ڈبل گونج والے لہجے میں فرمایا:
"کچھ بولتی اور خالہ دوسرے دن نہ آتیں تو آپ دھوتے سارے برتن؟؟"
آہ! مرزا نے سچ کہہ رکھا ہے:
چِت بھی اپنی پَٹ بھی اپنی محاورہ صرف خواتین کے لیے مخصوص ہے!!
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں