خاتون کی خدمت میں سلام اپن کا ۔۔۔ - Hyderabad Urdu Blog | Hyderabadi | Hyderabad Deccan | History Society Culture & Urdu Literature

Comments system

[blogger][disqus][facebook]

2022/01/17

خاتون کی خدمت میں سلام اپن کا ۔۔۔

khatoon woman

© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
17/جنوری/2022
*****


ابھی ابھی فیس بک پر ایک خاتون سیاسیہ و جہدکارہ کے ایک بھکت نے اپنی ایک پیڈ پوسٹ میں لکھا ہے۔۔۔
"تفصیل کے مطابق ساؤتھ بھارت کی خاتون تاجرہ عالمہ ڈاکٹر فلاں نے ۔۔۔"
یاد آیا کہ پچھلے ہی دنوں ایک مولوی صاحب نے دینی شخصیات کے تعارف والے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا:
"حضرت خدیجہؓ ایک مالدارہ خاتون تھیں"
اور چٹکلے کے طور پر ایک بھائی صاحب نے ایک ادبی گروپ میں ایک خاتون قلمکار کی تعریف میں لکھا:
"آپ تو ایک اچھی لکھاریہ ہیں"


مولابخش کے ڈنڈے کو تو رکھیں ایک طرف، آئیے ذرا کچھ دیر کے لیے ماضی میں چلتے ہیں۔ یہ 1977ء کی بات ہے یعنی خاتونِ آہن اندرا گاندھی کے ایمرجنسی دور کا ذکر۔۔ جب یہ غریب تیسری جماعت میں زیر تعلیم تھا۔ اب اتنا "پرانا قصہ" سننے سے پہلے ہی ہماری خاتون (اول و آخر) کانوں پر ہاتھ دھر کر فرماتی ہین:
"ابابابابا ۔۔۔ میری پیدائش سے قبل کے قصے نکو سناؤ جی۔۔۔ اللہ جانے ہمارے اماں ابا نے کئیکو اتنی قدیم روح سے پلو جوڑ دیا کی۔۔۔"
اور قبلہ و کعبہ #مرزا ایسے ڈائیلاگ سن کر ببانگ دہل فرماتے ہیں:
"شکر کرو پاشا، پڑھی لکھی جورو مل گئی۔ ورنہ پرانے شہر کے کئی گھروں میں، اللہ معاف کرے، فلم سنگم کا مشہور گانا اکثر بطور شکایت ہی سنا ہے: ہائے کا کروں رام مجھے بڈھا مل گیا!"


خیر ہم کہہ رہے تھے کہ ۔۔۔ "ادارۂ ملیہ" اسکول کے صدر صاحب (مرحوم جمیل احمد صاحب رحمہ اللہ) کی اہلیہ جنہیں ہم طلبا "ممّی" کہا کرتے تھے، کے ذمہ اردو اور دینیات کی کلاس تھی۔ اور ممی کی ہدایت تھی کہ روزانہ اخبار کی سرخیاں پڑھ کر آئیں اور کوئی ایک سرخی اپنے الفاظ میں سنائیں۔ ہم ٹھہرے نت نئے لفظ اور جملے گڑھنے کے شوقین۔ ایک روز بڑی شان سے اپنا فقرہ سنایا:
اندرا گاندھی ہمارے ملک کی طاق-تورہ خاتون ہیں!!


ممی کی آنکھیں پھیل گئیں ۔۔۔ "کیا کہا کیا کہا" کی گردان کے ساتھ پتلی بید کی چھڑی اٹھائی اور اپنے ہی چہیتے معصوم طالب علم کے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر دے دنادن دنادن!
مجھ بچارے کو اس وقت کیا معلوم تھا کہ 'طاقتور' کا صحیح تلفظ "طاقت/وَر" ہے نہ کہ "طاق/تور"۔
بہرحال آج جب سوشل میڈیا پر ایسی لاتعداد غلطیاں سنتے پڑھتے ہیں تو ممی کی وہ مار اس قدر شدت سے یاد آتی ہے کہ ڈبل ٹرپل بدلہ نکالنے کو جی تڑپ تڑپ جاتا ہے۔


اور یہ بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کے اواخر کا قصہ ہے، شاید 1989 یا 1990 کا۔ جب عثمانیہ یونیورسٹی کے ایم۔اے (اردو) کے کئی ایک طلبا سے ناچیز کی دوستی تھی۔ ایک بار ایک دوست بصد اصرار والد صاحب (رؤف خلش) سے اپنا ایک مضمون تصحیح کرانے آئے، حالانکہ میں نے ہزار بار کہا تھا کہ یار، میں خود کر دوں گا، مجھے دے دو، مگر نہیں مانے۔
والد صاحب نے خود پڑھنے کے بجائے میرے دوست سے کہا کہ پڑھ کر سنائیں (شاید تلفظ جانچنا مقصود رہا ہو)۔
مضمون پروین شاکر پر تھا۔ جب انہوں نے اپنے مضمون کا یہ فقرہ پڑھا:
"دور حاضر میں پروین شاکر نسائی حسیت کی ممتاز خاتون شاعرہ ہیں"۔
والد صاحب نے بھویں اچکائیں، ہاتھ اٹھا کر روکا اور کہا:
"میاں! کبھی کوئی 'مرد شاعرہ' نظر آئے تو مجھے بھی بتانا!!"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں