دائیں سے بائیں: سعید، فرید بھٹہ، سکندر علی خان، ڈاکٹر عابد معز، شفاعت صدیقی، رؤف خلش، سجاد ظہیر، رشید عالم صدیقی، میر احمد علی، ڈاکٹر پرویز احمد اور مکرم نیاز |
رپورٹ: کے۔این۔واصف (ریاض، سعودی عرب)۔
روزنامہ "اردو نیوز" (سعودی عرب)۔ بتاریخ: 2/اکتوبر 1995ء
*****
ادب برائے زندگی کی بھرپور نمائندگی کرنے والے جدید لب و لہجہ کے شاعر رؤف خلش نجی مصروفیت کے سلسلہ میں جدہ سے ریاض تشریف لائے۔ ریاض کے سخن فہم حضرات نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شعری نشستوں کا اہتمام کیا۔
رؤف خلش کے اعزاز میں پہلی محفل ایڈیٹر اوورسیز ماہنامہ 'شگوفہ' ڈاکٹر عابد معز کی قیام گاہ پر منعقد ہوئی۔ محفل کی صدارت گلف میں ادبی سرگرمیوں کے سرپرست سکندر علی خان، جنرل منیجر نیشنل کمپنی فار فوڈ اسٹف نے کی۔ سکندر علی خان نے اپنی مختصر صدارتی تقریر میں رؤف خلش کے فن و شخصیت کو سراہا۔ انہوں نے کہا کہ رؤف خلش کا تعلق فن تعمیر سے ہے لیکن وہ ادب کی زمین میں الفاظ کی اینٹوں سے غزل کی حسین عمارت تعمیر کرنے کے فن سے بھی بخوبی واقف ہیں۔
دوسری محفل ڈاکٹر پرویز احمد کی قیام گاہ پر ہوئی۔ ڈاکٹر پرویز احمد ریاض میں ادبی سرگرمیوں کے روح رواں کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ کمپیوٹر سائنس میں پی۔ایچ۔ڈی ہیں۔ کمپیوٹر کے جھروکوں (WINDOWS) سے تاک جھانک کے بعد جب اکتا جاتے ہیں تو ادب کے دریچوں کی طرف نظر کرتے ہیں۔ پرویز احمد سنجیدہ شاعری کرتے ہیں اور شاید ذائقہ بدلنے کے لیے طنز و مزاح بھی لکھتے ہیں۔
ایک شعری نشست پاکستان کے معتبر شاعر رشید عالم صدیقی کی صدارت میں منعقد ہوئی۔ رشید صدیقی نے بھی صدارتی تقریر میں رؤف خلش کی فنی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ سرزمین دکن نے ولی کی ڈالی ہوئی بنیاد کو آج تک قائم رکھا ہے اور ہر دور میں دکن سے بلند پایہ غزل گو شاعر اٹھے ہیں بےشک رؤف خلش اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہیں۔
دونوں نشستوں میں اس بات کا خیال رکھا گیا کہ زیادہ سے زیادہ کلام دبستانِ دکن کے شاعر اور ان محافل کے مہمان خصوصی رؤف خلش کو سنا جا سکے۔
مہمان شاعر کے علاوہ جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ان میں رشید عالم صدیقی، محترمہ عذرا نقوی، ڈاکٹر پرویز احمد، شفاعت صدیقی، فرید بھٹہ شامل ہیں۔ ڈاکٹر عابد معز نے اپنا مزاحیہ مضمون "عرض کیا ہے" سنایا۔ جس میں انہوں نے دیار غیر میں ہونے والے ویک اینڈ مشاعروں کا حال پیش کیا، جہاں ایسے شاعر جمع ہوتے ہیں جو یہاں دیگر مشاغل کی عدم موجودگی کی وجہ سے شاعر بن گئے۔ محفل میں موجود سامعین و شعرا حضرات نے عابد معز کے مشاہدات کو بےحد پسند کیا۔
سخن فہم حضرات کی ان محافل میں شعرا حضرات نے جو اشعار پیش کیے، ان میں بوسنیا سے کشمیر تک اور شیشان سے کراچی تک کے مظالم، ساری دنیا میں پھیلی بدامنی، حقوق انسانی کی پامالی، روٹی روزی کی مصیبتیں، غریب الوطنی کی مجبوریاں جیسے مختلف موضوعات کا احاطہ کیا۔ ان فکرانگیز نشستوں کی نظامت میر احمد علی نے کی اور آخر میں سجاد ظہیر نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
نوٹ:
پروفیسر ڈاکٹر پرویز احمد نے پوسٹ گریجویشن کے بعد 1974ء میں اے۔ایم۔یو سے کمپیوٹر سائنس ڈپلوما کیا اور کناڈا منتقل ہونے کے بعد 1986ء میں کنکارڈ یونیورسٹی (مونٹریال) سے کمپیوٹر سائنس میں پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ بعد ازاں وہ بغرض ملازمت سعودی عرب منتقل ہوئے اور پھر وہاں سے انڈیا لوٹ آئے۔ 9/اکتوبر 2013 کی شام نوئیڈا میں ان کا انتقال ہوا۔ وہ جولائی 2010 سے شاردا یونیورسٹی (گریٹر نوئیڈا) کے صدر شعبۂ کمپیوٹر سائنس رہے۔ ان کی اہلیہ عذرا نقوی اردو دنیا کی معروف و مقبول شاعرہ اور نثرنگار رہی ہیں۔ نثر و نظم میں ان کی پانچ سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں۔ 2008ء میں شائع شدہ "سعودی عرب کی قلمکار خواتین کی منتخب کہانیاں" ان کی ایسی نمایاں کتاب ہے جس کی وہ مترجم اور مرتب رہی ہیں۔ ان دنوں دہلی میں قیام پذیر ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں