© مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
12/جنوری/2022
*****
ابھی دو دن قبل آلو بیگن کی ڈش کی تصویر لگائی تو ہمارے ایک کزن کو تاؤ آ گیا، بولے: بھابھی اس سے اچھی ڈشز بھی تو بناتی ہیں۔
تو یہ ہے پچھلے اتوار کا ناشتہ: حیدرآبادی حلیم، نان اور گاجر کا حلوہ!
بات یہ ہوئی کہ کلکتہ کے ہمارے دوست جاوید جب غریب خانے پہنچے تو ان کا استقبال اسی روایتی حیدرآبادی حلیم سے کیا گیا تھا۔ عموماً حیدرآباد میں ماہِ رمضان میں ہی یہ سوغات پکتی، بٹتی اور بِکتی ہے۔ مہمانوں کو تو پسند آئی ہی۔ بچوں (اور بچوں کے ابا) نے بھی دوبارہ تقاضا کر ڈالا۔
حیدرآبادی حلیم ثابت ہی کھائی جاتی ہے۔ یہ تو سعودی عرب میں طویل قیام کے دوران پتا چلا تھا کہ پاکستانی ہوٹلوں میں حلیم، سعودی روایتی روٹی تمیص یا تندوری روٹی/نان کے ساتھ سرو کی جاتی ہے۔ اسی عجیب سے غذائی اشتراک کی مجھے اور میری فیملی کو بھی عادت ہو گئی تھی۔
(ویسے پڑوسی ملک کے احباب سے پوچھنا یہ ہے کہ کیا آپ کے پاس بالخصوص کراچی میں نان/روٹی کے ساتھ حلیم کھانے کا رواج ہے؟)
جبکہ حیدرآباد میں حلیم کے ساتھ تندوری روٹی یا نان کا تصور سرے سے ناپید ہے۔ بلکہ میرے عزیز دوست #مرزا تو حلیم کا ذکر روٹی/نان کے ساتھ سن یا دیکھ لیں تو بوکھلا کر پکار اٹھتے ہیں:
"دَیا! ذرا پتا تو کرو کہ بندہ خالص حیدرآبادی ہے یا ورنگل، نظام آباد، نلگنڈہ، تانڈور کے کٹے سے بچھڑ کر یہاں آ بسا ہے؟"
نوٹ: مرزا کی "خالص حیدرآبادی" سے مراد یہ ہوتی ہے کہ بندہ کے صرف باپ دادا نہیں بلکہ پردادا بھی شہرِ حیدرآباد فرخندہ بنیاد کے باشندہ رہے ہوں۔ یہی سبب ہے کہ مرزا مجھ غریب کے بچوں کو تو خالص حیدرآبادی دل و جان سے مانتے ہیں مگر مجھے ماننے میں تامل کرتے ہیں کہ میرے پردادا کا تعلق آندھرا سے رہا ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں