ماہر لسانیات اطہر علی ہاشمی (وفات: 6/اگست 2020، کراچی) لکھتے ہیں:
ہم پورا زور لگا چکے، یہ سمجھانے میں کہ "عوام" جمع مذکر ہیں، واحد مونث نہیں۔ لیکن بقول احمد فراز: شہر کا شہر ہی دشمن ہو تو کیا کیجے؟ ٹی وی چینلز کے بقراط اور مضمون نگار عوام کو مونث بنانے پر تلے ہوئے ہیں، حتیٰ کہ ہمارے اپنے گھر کے چراغ سنڈے میگزین کے کالم نگار بھی باز نہیں آتے۔ لکھتے ہیں: عوام سحر میں مبتلا ہو چکی تھی اور سوشل میڈیا پر اصرار کر رہی تھی!!
اطہر علی ہاشمی کو نہ صرف اردو زبان و بیان پر مضبوط گرفت حاصل تھی بلکہ وہ عربی، فارسی، ہندی اور سنسکرت زبانوں پر بھی عبور رکھتے تھے۔ زبان کی اصلاح کےحوالے سے ان کا ہفتہ وار کالم بعنوان "خبر ليجيے زباں بگڑی" اردو کے عالمی منظرنامے پر بےانتہا مقبول تھا۔ ان کے کالم مختلف ممالک کےاخبارات شائع ہوتے رہے ہیں۔ وہ جدہ سے شائع ہونے والے پہلے اردو اخبار "اردو نیوز" کے بانیوں میں بھی شامل تھے۔
رؤف طاہر، اپنے خاکے "ہمارے اطہر ہاشمی بھائی" میں ایک دلچسپ واقعہ یاد دلاتے ہوئے لکھتے ہیں (شائع شدہ: روزنامہ "دنیا" ویب سائٹ، بتاریخ 11/اگست 2020ء) ۔۔۔
احمد حاطب صدیقی کو، یاد ہے سب ذرا ذرا۔۔۔ اخبار کے ایگزیکٹو ایڈیٹر، جو "ذاتی زندگی" میں خاصے نرم مزاج تھے لیکن دفتر میں ہمیشہ سنجیدہ (اور کبھی کبھار غصے کی کیفیت میں بھی) نظر آنا شاید دفتری نظم و ضبط اور فرائضِ منصبی کا تقاضا سمجھتے تھے۔ ایک دن انہیں ایک نوجوان سب ایڈیٹر کی چھٹی کی درخواست موصول ہوئی:
3/مئی 1979 کو فدوی کی خالہ محترمہ کی دخترِ نیک اختر کی شادی ہے، جس کے لیے عارض کو ایک ماہ کی رخصتِ استحقاقی مرحمت فرمائی جاوے۔
ایگزیکٹو ایڈیٹر نے درخواست گزار کو فی الفور دفتر طلب کیا اور مخصوص انداز میں باز پرس فرمائی:
"کیوں میاں صاحبزادے! اپنی خالہ کی دخترِ نیک اختر کی شادی میں ایک مہینے تک آپ کیا کردار ادا فرمائیں گے؟"
میاں صاحبزادے نے شرماکر، بڑی سعادت مندی اور متانت سے عرض کیا:
"دلہا کا"۔
یہ صاحبزادے اطہر علی ہاشمی تھے۔
ان کی اس حددرجہ سنجیدگی اور متانت پر ایگزیکٹو ایڈیٹر بھی مسکراہٹ پر قابو نہ رکھ سکے۔ اسی روز اخبار کے نوٹس بورڈ پر یہ "اطلاع" بھی آویزاں تھی کہ آج اتنے بج کر اتنے منٹ پر جناب ایگزیکٹو ایڈیٹر مسکراتے ہوئے دیکھے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیے ۔۔۔
ممتاز صحافی اطہر علی ہاشمی کا انتقال
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں