مکرم نیاز (حیدرآباد)۔
11/جولائی/2021
*****
آج مجلہ "عالمی فلک" کے تازہ شمارہ میں معروف ادیب صدیق عالم کا ایک انٹرویو مطالعے سے گزرا (انٹرویو نگار نورینہ اکرم، پاکستان ہیں)۔ مدیر مجلہ نے تعارفی نوٹ میں یہ بالکل صحیح لکھا کہ: 'یہ وہ چیز ہے جس کا قاری تک پہنچنا لازمی ہے۔ یہ ان گھسی پٹی چیزوں سے بالکل الگ قسم کی چیز ہے جو ہم آئے دن رسالوں اور اخبارات میں دیکھتے رہتے ہیں'۔
لہذا میں یہاں وہ اقتباسات درج کر رہا ہوں جو سمجھتا ہوں کہ میرے سوشل میڈیا حلقۂ احباب کو ضرور پڑھنا چاہیے۔
البتہ اس سے پہلے میں ایک بات ضرور کہوں گا۔ اس انٹرویو میں بعض باتیں ایسی ہیں جن سے میں بجا طور پر اور مکمل حوالوں کے ساتھ اختلاف رکھتا ہوں۔۔۔ ان پر میں نے مختصر نوٹ بھی لکھ رکھے ہیں، کبھی موقع ملا تو اس حوالے سے کوئی مضمون ضرور لکھوں گا۔ دیکھیے، ایسی کوئی بات بھی نہیں کہ احقر کوئی بڑا طرم خاں قلمکار ہے یا وسعتِ مطالعہ میں بڑے ادیبوں کی ہمسری کرتا ہے۔ لیکن میرے قریبی واقفکار بہرحال جانتے ہیں کہ میں ایک تربیت یافتہ قاری ہوں جسے ترقی پسندی اور جدیدیت کے حامل سرپرستوں کے بشمول آج کے مابعد جدید دور کے قلمکاروں نے شخصیت پرستی یا علمی مرعوبیت سے گریز کا سلیقہ بھی سکھایا ہے۔
خیر یہ سب جانے دیجیے اور اقتباسات ملاحظہ کیجیے۔ میں یہاں پر صدیق عالم کا خود کا برتا ہوا ٹیگور ڈراما کا واقعہ نہیں لکھ رہا ہوں جو سوال:10 کے جواب میں بیان کیا گیا ہے اور جسے آج کی نسل کے قلمکار کو کم از کم تین چار بار ضرور قرات کرنی چاہیے۔
مدیر احمد نثار صاحب کا شکرگزار ہوں کہ رقم کی ترسیل سے قبل ہی رسالہ بھیجنے کی نوازش کی۔ (یاد رہے پی۔ڈی۔ایف کی ضرورت و اہمیت کا قائل ہونے کے باوجود میرا تعلق بدقسمتی سے اس زمرے سے رہا ہے جو کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے کا عادی ہوتا ہے)۔
- ناقدین اپنی عادت سے مجبور ہو کر آج بہت سارے مصنفوں کے نام دہراتے تو رہتے ہیں، قاری کو ان سے دلچسپی نہیں ہوتی۔ دوسری طرف کہانی اگر اپنی پوری بات کہہ ڈالے تو کہانی مر جاتی ہے۔ اصلی کہانیاں اس لیے زندہ رہتی ہیں کیونکہ وہ گرفت میں نہیں آتیں۔ یہاں تک کہ ایک قلمکار کے لیے بھی یہ بتانا مشکل ہوتا ہے کہ اس نے کیا لکھا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ وہ کس مقام پر ہوگا؟
- میں اس میں یقین رکھتا ہوں کہ کہانی میں سپاٹ بیانیہ نہیں ہونا چاہیے، اس میں ہر طرح کا تجربہ ہونا چاہیے بشرطیکہ قاری کی دلچسپی برقرار رہے۔ رہا کہانی کے گم ہونے کا شور، مجھے پتا بھی نہیں چلا کہ کب اردو ادب سے کہانی گم ہوئی اور کب واپس آ گئی۔ ہو سکتا ہے جہاں کہانی گم ہوئی تھی میں غلطی سے اس جگہ کھڑا تھا اور اس کے ساتھ میں بھی گم ہو گیا تھا اور جب کہانی واپس آئی تو اس سیلاب میں بہتے ہوئے میں بھی واپس آ گیا۔ خود کہانی سے لوگوں کی مراد کیا ہے؟ اگر اس کا تعلق واقعے کے بیان سے ہے تو یہ اپنے آپ میں ایک سانحہ ہی ہے کہ ہم اپنے فکشن کے عناصر کو کتنا کم جانتے ہیں۔
-
افسانے کا کینوس بہت چھوٹا ہوتا ہے جس میں کردار کو وجود میں لانا ایک بہت بڑا فن ہے اور انہیں قاری کے لاشعور میں بسانا تو اور بھی بڑا کارنامہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مصنف افسانوں میں کردار بنا نہیں پاتے بلکہ بہت سارے مصنف تو ناول در ناول لکھتے رہنے کے باوجود ایک کردار تک وجود میں نہیں لا پاتے۔ بہت سارے فکشن نگار ہیں جنہوں نے شروع میں جو افسانہ لکھا تھا آج تک اسے ہی اپنے تمام افسانوں اور ناولوں میں دہراتے آ رہے ہیں۔
دوسری چیز ہے، افسانے اس کی اپنی مخصوص آواز دینا۔ یہ ایک دوسرا مشکل کام ہے۔ زیادہ تر فکشن نگار اپنے کرداروں کے اندر خود بولنے لگتے ہیں، خاص طور پر اگر کردار کے منہ سے سارے مکالمے چھین لیے جائیں اور انہیں مکمل طور پر گونگا بنا دیا جائے تو ایک اوسط درجے کے مصنف کے لیے یہ زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے کیونکہ خود مصنف کو ہسٹریا کا دورہ پڑ جاتا ہے۔ - ایک شخص کو جب کسی زمین پر رہتے ہوئے برسوں گزر جاتے ہیں تو وہ زمین واپس اس کے اندر جینا شروع کر دیتی ہے، مگر اس پراسیس میں وہ زمین وہ نہیں رہتی جو باہر ہمیں دکھائی دیتی ہے، وہ حقیقی دنیا ایک اور دنیا میں ڈھل جاتی ہے بلکہ کبھی کبھار ماورائے حقیقت دنیا سے بھی آگے نکل جاتی ہے۔ میرے افسانوں کا لوکیل اس ماورائے حقیقت دنیا کے آگے کی ہے۔ اگر قلمکار نے اس ماورائے حقیقت دنیا کی تخلیق نہیں کی تو اس نے کیا ہی کیا ہے؟ اگر ایک شہر یا گاؤں کا ہو بہو بیان ہی مقصود ہے تو یہ کام تو ایک اخبار کا رپورٹر اس سے بہتر طریقے سے انجام دے سکتا ہے۔
- فکشن رائٹر کی بنیادی ذمہ داری فکشن اور صرف فکشن ہے، اس کی اور کوئی ذمہ داری نہیں۔ سماجی سروکار یا انسانی ہمدردی یا علم کی تلاش یا انصاف کی لڑائی، یہ وہ چیزیں ہیں جو فکشن کے اندر خود بخود اپنی جگہ بنا لیتی ہیں۔ ان چیزوں کے لیے کسی شعوری کوشش کی ضرورت نہیں پڑتی نہ ہی ہٹلر کی طرح آپ کو دوسری زمینوں پر غاصبانہ قبضہ جمانے کے لیے کسی جارحانہ عمل اپنانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ خود یہ چیزیں فکشن کے اندر اتنی ہی جگہ بنائیں گی جتنی کہ فکشن کو مجروح کیے بغیر وہ بنانے کی اہل ہوں گی۔ آپ نے فکشن پر باہر سے بوجھ ڈالا تو فکشن دم توڑ دے گا۔
- جب ایک ناقد کسی افسانہ یا فکشن کے اندر سے کچھ باہر نکالنے کا دعویٰ کرتا ہے تو اس بات کا اطمینان رکھیں کہ اس نے محض اپنی چیزیں ڈول میں بھر کر کنویں کے اندر ڈالی ہیں اور ڈول کو واپس نکال کر اس دعویٰ پر بضد ہے کہ اس نے کنویں سے نئی چیزیں باہر نکالی ہیں۔ دراصل یہ اس کا اپنا ڈالا ہوا کوڑا کرکٹ ہے جس کا فکشن کی اندرونی ماہیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
-
ایک بار یہ سوال اٹھایا گیا کہ ایسی کون سی اہم ایجادیں ہیں جن کے بغیر انسان واپس جنگل میں لوٹنے پر مجبور ہو جائے گا۔ اس کا جواب نکالا گیا: پہیہ، بجلی اور انٹرنیٹ۔ میں اس میں ایک اور چیز کا اضافہ کرنا چاہوں گا جو میری نظر میں ان تینوں چیزوں پر حاوی ہے، وہ ہے: لفظ! لفظ انسان کی پہلی اور تادمِ تحریر سب سے اہم ایجاد ہے۔
جب تک انسان زندہ ہے، اس کا imagination زندہ رہے گا، جب تک imagination زندہ ہے، الفاظ زندہ رہیں گے اور جب تک الفاظ زندہ ہیں انسان مر نہیں سکتا۔ اس لیے مصنف اور قاری کو دل برداشتہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں۔ اچھا اور برا ادب لکھا جاتا رہے گا۔ پڑھنے والے کم زیادہ ہوتے رہیں گے۔ کتاب، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ ایجاد ہوتے رہیں گے، ان کے متبادل دریافت ہوتے رہیں گے، مگر دن کے خاتمے پر لفظ زندہ رہے گا اور اسے پڑھنے والا بھی۔
ماشاللہ لفظوں کا چناو بہت اچھا کیا
جواب دیںحذف کریںhttps://rahimyarkhan.net