تقریباً زائد از دو دہائی (1995 تا 2016) سعودی عرب میں قیام کے بعد راقم الحروف کی مستقلاً حیدرآباد واپسی ہوئی تو اسی سال (جون/2016) حیدرآباد کے اپنے پہلے رمضان کے دوران، چاروں جمعوں کی نماز حیدرآباد کی مختلف مشہور و مقبول مساجد میں ادا کرنے کا موقع ملا۔
ان مساجد کا مختصر تعارف اور تصاویر فیس بک کی اپنی ٹائم لائن پر اسی وقت لگائی تھیں۔ جو آج پانچ سال بعد یہاں بطور بلاگ پوسٹ پیش خدمت ہیں۔
(نوٹ: تصاویر کو بڑے سائز میں دیکھنے کے لیے متعلقہ تصویر پر کلک کیجیے)
رمضان کے پہلے جمعہ کی نماز ۔۔۔قطب شاہی سلطنت کے چھٹے فرمانروا، سلطان محمد قطب شاہ کی دختر خیرالنساء بیگم (عرف: ماں صاحبہ) نے 1626ء میں اسے تعمیر کیا تھا۔ اور کہا جاتا ہے کہ انہوں نے اسے اپنے اتالیق اخند ملا عبدالملک سے عقیدت کے احترام میں تعمیر کیا۔
معروف و مقبول "قطب شاہی مسجد، خیریت آباد" میں۔
تاریخی دستاویزات کے مطابق، سلطان محمد قطب شاہ کی دختر خیرالنساء بیگم کے خاوند حضرت حسین شاہ والی (رح) نے مسجد کے خاکہ کی تشکیل اور پھر اس کی تعمیر میں اپنا نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ مسجد میں داخلہ کے لیے تین عدد وسیع و عریض محراب نما کمانیں ہیں۔ علاوہ ازیں مسجد کے میناروں کی جالی دار نقاشی قابل دید ہے۔ مسجد سے متصل جو خالی گنبد ہے، کہتے ہیں کہ حسین شاہ ولی نے اسے خود اپنے مقبرہ کے طور پر تعمیر کیا تھا مگر کسی سبب یہ ممکن نہ ہو سکا، تب سے یہ گنبد نما مقبرہ خالی ہی پڑا ہے۔ مسجد کی یہ عمارت اب محکمہ آثار قدیمہ کے زیرتحت شمار ہوتی ہے۔ حیدرآباد کے صحافی جے ایس افتخار صاحب نے مسجد کی زبوں حالی پر حکومت وقت کو مطلع کرتے ہوئے ایک جائزہ مقبول قومی انگریزی روزنامہ "دی ہندو" میں یہاں شائع کروایا تھا:
Khairatabad mosque in state of neglect
حضرت خواجہ حسین شاہ ولی کی سوانح پر مبنی یہ مضمون بھی قابل مطالعہ ہے:
Hazrat Khaja Hussian Shah Wali r.a
پس نوشت:
بعد نماز جمعہ مسجد کی ایک بزرگ ہستی سے ملاقات کا جب شرف حاصل ہوا تو ان سے پتا چلا کہ گزشتہ 9 سال سے مسجد کی کوئی کمیٹی قائم نہیں ہے اور پیش امام و موذن صاحبان کو تنخواہ ریاستی وقف بورڈ سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ مسجد کے چندے اور مسجد کی ملگیوں کے کرایہ سے ان کی روزی روٹی چلتی ہے۔
رمضان کے دوسرے جمعہ کی نمازکہا جاتا ہے کہ یہ شہر حیدرآباد کی واحد ہائی ٹیک مسجد (جماعت اسلامی ہند کے زیرتحت) ہے جس کے جمعہ خطبات یوٹیوب پر نشر ہوتے ہیں اور جس کا اپنا فیس بک پیج (یہ الگ بات ہے کہ گزشتہ تین سال سے پیج اپ-ڈیٹ ہی نہیں ہوا) بھی قائم ہے۔ یہ تو راقم نے بھی محسوس کیا کہ مہدی پٹنم کے تجارتی علاقہ میں قائم اس منفرد مسجد میں نمازِ جمعہ کے مصلیان کی کثیر تعداد متوسط اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طبقہ پر مشتمل تھی۔ مولانا اعجاز محی الدین وسیم کے اردو خطبہ کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی جاری تھی جو ایک گھنٹہ طویل رہا (گو کہ عصری لب و لہجہ میں تھا مگر اس قدر طویل خطبہ سے گریز زیادہ بہتر ہوتا ہے، بیس تا پچیس منٹ کافی ہوتے ہیں۔)
مسجدِ عزیزیہ ، ہمایوں نگر ، مہدی پٹنم، حیدرآباد
مسجد کی جس خصوصیت کے بارے میں جان کر نماز جمعہ کے لیے احقر نے وہاں کا رخ کیا وہ مسجد کے پیش امام مولانا حافظ عمادالدین محسن کی قرات تھی جو واقعتاً سننے کے قابل ہے اور شہر بھر میں معروف بھی۔ مقبول انگریزی صحافی جے۔ایس۔افتخار کے بموجب امام موصوف کا لحن سعودی عرب کے ممتاز قاری سعود الشریم سے ملتا جلتا ہے۔ ویسے بھی امام صاحب حافظ عمادالدین محسن نے جامعۃ الاسلامیہ مدینہ منورہ سے قرات کی خصوصی تعلیم حاصل کی ہے۔ مسجد ھذا سے متعلق معروف قومی انگریزی روزنامہ "دی ہندو" میں کچھ سال قبل شائع شدہ یہ دلچسپ رپورٹ بھی قابل مطالعہ ہے: Azizia Masjid – local mosque with global connectivity
رمضان کے تیسرے جمعہ کی نمازغالباً یہ مسجد حیدرآباد کے ان چند مذہبی مقامات میں سے ہے جن کے سبب ٹریفک جام کا مسئلہ نہایت سنگین باور کیا جاتا ہے۔ نامپلی اور ملے پلی کے درمیان آمد و رفت کی یہ تنگ سڑک شاید ہی دن/شام کے کسی وقت خالی ملے۔ حالانکہ یہ مسجد سطح سڑک سے ایک منزل اوپر ہے۔
ایک مینار مسجد (جامع مسجد مجیدی) ، نامپلی ، حیدرآباد
اب تک تو یہی سنتے پڑھتے آئے ہیں کہ اس مسجد کا شمار حیدرآباد دکن کی قدیم ترین مساجد میں ہوتا ہے، مگر افسوس کہ چچا گوگل بھی اس مسجد کے متعلق معلومات فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ ممکن ہے قدیم ریاست حیدرآباد سے متعلق کسی مضمون یا کتاب میں اس کا تذکرہ درج ہو جو راقم کی نظر سے اب تک تو نہیں گزرا۔
مسجد زیادہ بڑی تو نہیں مگر جو اکلوتا مینار اس کی وجہ تسمیہ ہے وہ آرکٹکچرل نقطہ نگاہ سے واقعتاً نہایت خوبصورت ہے۔ مسجد کے قریب ہی جہاں حیدرآباد دکن ریلوے اسٹیشن (المعروف بہ: نامپلی ریلوے اسٹیشن) قائم ہے، وہیں ادارہ انیس الغرباء (یتیم خانہ) ، درگاہ یوسفین (اورنگزیب کی فوج میں ملازم حضرت سید شاہ یوسف الدین اور سید شاہ شریف الدین کا مشترکہ مزار)، نمائش میدان، سبحان بیکری جیسے معروف مقامات بھی ہیں۔
ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز (مدیر اعلیٰ ہفت روزہ 'گواہ' حیدرآباد) اپنے کمنٹ میں لکھتے ہیں کہ: یہ مسجد مجید صاحب نے تعمیر کروائی جن کے فرزند ستار سیٹھ ،مالک شو ورلڈ، پتھر گٹی ہیں۔ ممکن ہے کہ رضی الدین معظم کی کتاب 'حیدرآباد کی مساجد' میں اس کا ذکر ہو۔
رمضان کے چوتھے اور آخری جمعہ کی نمازشہر حیدرآباد کے مشہور اقلیتی تعلیمی ادارہ انوارالعلوم کے قریب واقع جامع مسجد، جو تبلیغی جماعت کے عظیم تر حیدرآباد "مرکز" کے طور پر مشہور و معروف ہے اور جہاں سے اتوار کے درس کے ذریعے ماضی قریب و بعید میں نوجوان نسل کی ایک معتد بہ تعداد نے اخلاقی، علمی و دینی تربیت حاصل کی۔۔۔
جامع مسجد معظم پورہ (ملے پلی بڑی مسجد)
پروفیسر محمد مصطفی علی سروری (اسوسی ایٹ پروفیسر 'مانو' حیدرآباد) اپنے کمنٹ میں لکھتے ہیں کہ: جامع مسجد معظم پورہ کی تاریخ کے متعلق بتلایا جاتا ہے کہ یہ ایک مسلمان دھوبی کی جانب سے بنائی گئی ہے۔ مسلمان دھوبی جوڑا لاولد تھا، انھوں نے اپنی زمین مسجد کو وقف کر دی۔ ان دونوں کی قبور آج بھی احاطہ مسجد میں مین گیٹ کے بالکل بازو ہے۔ اس مسجد کا شمار شہر کی ان مسجدوں میں ہوتا ہے جہاں غیر رمضان میں بھی تقریباً چھ سو تا سات سو مصلی موجود رہتے ہیں۔ پہلے مسجد کی کمیٹی کا باضابطہ الیکشن ہوتا تھا، اب کمیٹی کے افراد نے وقف بورڈ کے ذریعہ اپنی کمیٹی کو تولیتی کمیٹی میں تبدیل کر لیا ہے اب الیکشن نہیں ہوتا کمیٹی کا حکم چلتا ہے۔
***
©مکرم نیاز
#حیدرآباد
#مساجد
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں