وطن عزیز کے ایک حصہ کا سیاسی و سماجی ماحول، فرقہ وارانہ فسادات کے سبب اس وقت انتہائی مخدوش ہے۔
مگر ۔۔۔
یاد رہے کہ ملک و قوم کسی نہ کسی وقت برے یا انتہائی خراب حالات سے بھی نبرد آزما ہوتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی مایوسی، غم و الم کا شکار ہو جائے یا ہمت ہار جائے۔ بحیثیت مسلمان ہمیں امید کا دامن چھوڑنا نہیں چاہیے کیونکہ ہماری ساری اچھی اور مثبت امیدیں اس ذات سے وابستہ ہیں جو خالقِ کائینات ہے۔ اپنے رب کی طرف رجوع ہونے کے لیے جو زمینی سطح پر کرنے کا کام ہے ۔۔۔ وہ جناب عبداللہ مشتاق نے بہترین طریقے پر سمجھایا ہے۔ ان کی فیس بک ٹائم لائن کی ایک حالیہ پوسٹ کا مفید حصہ ذیل میں ملاحظہ فرمائیں۔۔۔
مذہبی منافرت ۔۔۔۔
یہ مرض ہے، جب تک مرض کی صحیح تشخیص نہیں ہوگی اس وقت تک علاج بھی صحیح نہیں ہو سکتا، اب جب ملک کے یہ حالات ہیں تو پھر ایسے میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
کیا اسلام نے ایسے حالات میں ہماری رہنمائی نہیں کی ہے؟
ایسی بات ہرگز نہیں ہے۔
ایسے حالات میں ہم مثبت طریقہ اپنا کر ہی اپنی جان، مال، اور عزت محفوظ رکھ سکتے ہیں!
ملک کے اکثریتی طبقہ کو خراب کرنے کی انتھک کوشش کی گئی ہے، لیکن اس کے باوجود اس میں اچھے لوگ بھی ہیں، اس کی ایک جھلک ہمیں مظاہروں میں نظر آئی ہے۔۔۔
آپ نے دیکھا ہے کہ ان مظاہروں میں جو صرف مسلمانوں کے خلاف قانون بننے کی وجہ سے ہو رہے ہیں، کچھ حد تک برادران وطن بھی شامل ہو رہے ہیں، اس لئے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے ۔۔۔
اگر مسلمان مثبت سوچ کے ساتھ آگے بڑھیں تو کامیابی یقینی ہے، مذہبی منافرت کا جواب مذہبی منافرت سے دینا مسئلہ کا حل ہرگز نہیں ہے، اس سے مسائل اور الجھتے ہیں، گویا آپ فریق مخالف کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس رہے ہیں۔
یقیناً فسادات سے مسلمانوں کا نقصان ہوتا ہے، مسجدوں کی بے حرمتی بحیثیت مسلمان کسی کے لئے بھی تکلیف دہ ہے، لیکن جب مذہبی منافرت میں شدت ہوتی ہے تو یہ ایک فطری عمل ہے۔
اللہ تعالی نے کہا:
ولولا دفع الله الناس بعضهم ببعض لهدمت صوامع وبيع وصلوات ومساجد يذكر فيها اسم الله.
کہ اگر اللہ تعالی ایک دوسرے کا دفاع نہ کرے تو یہ سارے عبادت خانے مسمار کر دئے جاتے۔
لہذا آپ یہ سمجھیں کہ لڑائی طویل ہے اس لئے اس کے منصوبے بھی طویل بنانے کی ضرورت ہے، ورنہ مظاہروں میں صرف کی گئی محنت رائیگاں ہو جائے گی، یہ فساد کرائے ہی گئے ہیں مظاہروں کو کمزور کرنے کے لئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں