تحریر: اقبال حسن آزاد (مونگیر، بہار)۔
دہلی سے شائع ہونے والے مشہور زمانہ رسالے "شمع" کے نام سے کون ناواقف ہوگا۔
واقعہ یہ ہے کہ یوسف دہلوی مرحوم اپنی اہلیہ کے علاج کے سلسلے میں دہلی آئے ہوئے تھے۔ بیماری نے طول کھینچا اور ان لوگوں کا قیام طویل سے طویل تر ہوتا گیا۔ وقت گزاری کے لیے انہوں "شمع" نام کا ایک نیم ادبی رسالہ جاری کیا۔ شروع میں اس کی قیمت صرف دو آنے تھی۔ اس رسالے نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے اور "شمع" ایک مستحکم ادارے کی شکل اختیار کرتا گیا یہ رسالہ اتنا مشہور تھا کہ پاکستان سمگل ہوتا تھا۔
پھر اس ادارے سے "شمع" کے علاوہ "سشما" (ہندی) "بانو"، "کھلونا"، شبستاں"، "مجرم" اور "دوشی" (ہندی) بھی شائع ہونے لگے۔ یہ سارے رسالے پابندئ وقت کے لیے مشہور تھے۔
"مطب خانے" کا قیام بھی عمل میں آیا اور "شمع پبلیکشنز" کا بھی۔ اس ادارے کا اپنا چارٹرڈ ہوائی جہاز تھا۔ کسی زمانے میں یہاں زبیر رضوی اور ڈاکٹر راہی معصوم رضا بھی کام کیا کرتے تھے۔ اس ادارے سے نکلنے والے رسالوں میں قرةالعین حیدر، عصمت چغتائی، خواجہ احمد عباس اور کرشن چندر کے علاوہ اپنے وقت کے تقریباً سارے بڑے افسانہ نگار شائع ہوا کرتے تھے۔ یہ رسالہ اپنے قلمی معاونین کو معاوضہ بھی ادا کیا کرتا تھا کیونکہ اس کی اشاعت ایک لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔
اس ادارے نے "آئینہ" نام کا ایک خالص ادبی رسالہ بھی نکالا تھا جو گھاٹے کا سودا ثابت ہوا لہذا اسے جلد ہی بند کر دیا گیا۔
1978 میں آنجہانی اندرا گاندھی کے نافذ کردہ ایمرجنسی کا جب خاتمہ ہوا اور مرار جی ڈیسائی کی سرکار بنی تو میں نے ایک مختصر افسانہ "انقلاب" لکھا اور اسے "شمع" کے پتے پر ارسال کر دیا۔ اگلے ہی ہفتے مدیر شمع جناب یونس دہلوی کا خط آیا کہ افسانہ اشاعت کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے۔ اسے کہیں اور مت بھیجئے گا۔ اس ادارے کا ذاتی پوسٹ کارڈ ہوا کرتا تھا جو سفید رنگ کا تھا۔ اس سے پہلے میری ادبی کاوشیں دیگر رسائل میں جگہ پاتی رہی تھیں لیکن شمع میں چھپنے کا پہلا اتفاق تھا۔ خیر ! دوسرے یا تیسرے مہینے ہی وہ افسانہ شائع ہو گیا۔۔
مرار جی ڈیسائی نے بھی ایک ہزار روپے کا چلن ختم کروا دیا تھا مگر اس وقت آج جیسی افرا تفری نہیں مچی تھی کیونکہ اس زمانے میں ہزار روپے ایک بڑی رقم ہوا کرتی تھی اور اس کا نیاز صرف امراء و رؤسا ہی کو حاصل تھا۔ اس نوٹ بندی پر بھی میں نے ایک افسانہ "چھوٹا چور" لکھا تھا۔ یہ افسانہ بھی شمع ہی میں شائع ہوا تھا۔ "انقلاب" کی اشاعت کے فوراً بعد دہلی جانے کا اتفاق ہوا۔ میرا قیام جامعہ نگر میں تھا۔ دہلی کا پروگرام بنتے ہی میں نے شمع کے دفتر میں جانے کا تہیہ کر لیا تھا۔ پتا تو میرے پاس تھا لہذا پہلی ہی فرصت میں وہاں جا پہنچا۔ شمع کا دفتر ایک عالیشان عمارت میں واقع تھا۔ صدر دروازے پر ایک باوردی دربان تعینات تھا جس کا قد یقنیناً ساڑھے چھ فٹ رہا ہوگا۔ اس نے آنے کی وجہ پوچھی۔ میں نے کہا کہ میں یونس دہلوی صاحب سے ملنے آیا ہوں۔ اس نے میری رہنمائی کی اور استقبالیہ پر بیٹھی ایک نوجوان خاتون سے ملا دیا۔ وہ خاتون اردو زبان سے نابلد معلوم ہو رہی تھیں۔ انہوں نے بھی میرے آنے کا سبب پوچھا۔ میں نے پھر وہی جواب دیا کہ میں مدیر محترم سے ملنے آیا ہوں۔ انہوں نے جرح کی کہ کیوں ملنا چاہتے ہیں؟ میں نے کہا کہ میرا افسانہ شمع میں چھپا ہے ۔ میں ان سے مل کر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ انہوں نے میری شکل غور سے دیکھی اور حیرت سے پوچھا۔
"آپ کا افسانہ شمع میں چھپا ہے؟"
"جی، جی ہاں!" میں نے مسکین لہجے میں جواب دیا۔ انہوں نے میرا نام پوچھا۔ پھر اسے کاغذ پر نوٹ کیا اور انٹر کام پر کسی سے کچھ بات کی۔ ادھر سے ہری جھنڈی ملی تو مجھے ایک طرف جانے کا اشارہ کیا۔
میں آگے بڑھا تو دیکھا کہ بہت سارے کاتب فرش پر بیٹھے اپنے اپنے کام میں مشغول تھے۔ ہر طرف کاغذات کے ڈھیر لگے تھے۔ کسی نے میری جانب توجہ نہ دی۔ میں بتائے گئے کیبن کی جانب بڑھا۔ اندر ایک نہایت خوش شکل اور وجیہ صاحب فروکش تھے۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے چشمے کی پیچھے سے مسکراتی آنکھوں سے جواب دیا اور مجھے سامنے بچھی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ان کی میز پر بہت ساری ڈاک پڑی تھی۔ میرے اندازے کے مطابق دیڑھ دو سو لفافے اور پوسٹ کارڈ رہے ہوں گے۔ دوران گفتگو میں نے دریافت کیا کہ کیا یہ صرف ایک دن کی ڈاک ہے۔
ہنس کر بولے: جی ہاں!
پھر باتیں ہونے لگیں۔ ان دنوں واجدہ تبسم کا طویل افسانہ "پھول کھلنے دو" شمع میں قسط وار شائع ہو رہا تھا۔ کچھ باتیں اس کے تعلق سے ہوئیں۔ وہ اپنی ساری مصروفیتوں کو چھوڑ کر صرف میری جانب متوجہ تھے۔ ان کے کسی بھی عمل سے یہ ظاہر نہیں ہو رہا تھا کہ میرا اس طرح بن بلائے آنا ان پر گراں گزر رہا ہے۔ پھر انہوں نے مجھے سبز چائے پلائی اور پوچھا کہ ابھی تو آپ کو اپنے افسانے کا معاوضہ موصول نہیں ہوا ہوگا۔
میں نے کہا۔ "جی نہیں! ابھی تک تو نہیں ملا ہے۔"
پھر انہوں نے ایک واؤچر پر کچھ لکھا اور گھنٹی بجائی۔ چپراسی اندر آیا تو اس کی جانب وہ واؤچر بڑھا کر بولے کہ اسے فلاں صاحب کو دے آؤ ۔ تھوڑی دیر بعد چپراسی مبلغ پینتالیس روپے نقد لے کر آیا۔ انہوں نے وہ رقم میرے حوالے کی اور میں نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے جانے کی اجازت مانگی۔
اس کے بعد بھی میرے کئی افسانے "شمع" اور "بانو" میں شائع ہوئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ معاوضہ کی رقم میں اضافہ ہوتا گیا۔
لیکن وہ جو کہا گیا ہے نا کہ "سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں"
تو جناب! اس ادارے کے برے دن بھی آ گئے۔ اور ایک ایک کر کے سارے رسالے بند ہوتے چلے گئے۔ شمع کا جو آخری شمارہ شائع ہوا تھا اس میں میرا افسانہ "دشمن" شامل تھا۔ اس کا معاوضہ مجھے نہیں ملا۔ اس کے بعد یہ ادارہ تاریخ کا حصہ بن گیا۔
اس ادارے کے بند ہونے کے چند ماہ بعد میرے پاس ایک انجان شخص کا خط آیا۔ لکھا تھا کہ: "میں شمع میں کاتب تھا۔ بھائیوں کے جھگڑے میں ادارہ بند ہو گیا۔ ہم لوگوں کو کئی ماہ سے تنخواہ بھی نہیں ملی۔ اب میں کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوں اور فاقے کر رہا ہوں۔ اگر آپ میری کچھ مدد کر دیں تو عنایت ہو گی۔"
میں نے سوچا کہ یہ کوئی فراڈ بھی ہو سکتا ہے لہذا اس خط کو ردی کی ٹوکری کے حوالے کر دیا۔ لیکن اس کے چند ہفتوں بعد ہی کسی اردو اخبار میں ایک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی:
"شمع کے کاتب فلاں صاحب کا بعارضہ کینسر انتقال ہوگیا ہے۔"
ماہنامہ شمع دہلی - جنوری 1989 - پی۔ڈی۔ایف ڈاؤن لوڈ
شکریہ
جواب دیںحذف کریںمعلومات سے بھرا مضمون تحریر کرنے کا
ہاں بہت معلوماتی مضمون ہے۔
حذف کریںبہترین ، بہت کم ویب سائٹس اس طرح کے ادب پارے شائع کرتی ہیں۔
جواب دیںحذف کریںارشد فاروق بٹ
ایڈیٹر : https://sahiwal.tv