دکن
یہ مقولہ ہند میں مدت سے ہے ضرب المثل
جو کہ جا پہنچا دکن میں، بس وہیں کا ہو رہا
پارسی، ہندو، مسلماں یا مسیحی ہو کوئی
ہے دکن کو ہر کوئی اپنی ولایت جانتا
(حالی)
شبلی کو نہیں بار یہاں ملک سخن میں
حالی ہی کا سکہ ہے جو چلتا ہے دکن میں
(شبلی)
خلق و تہذیب میں خدا رکھے
ہیں غنیمت بہت دکن کے لوگ
(صفی اورنگ آبادی)
سالار جنگ میوزیم
کیا دولت بیدار ہے ارباب ہنر کی
قیمت ہے یہاں ہیچ لعل و گہر کی
یہ گنج گراں مایہ تہذیب و تمدن
معراج ہے حسن عمل و ذوق نظر کی
(سکندر علی وجد)
حسین ساگر
اپنے محبت بھرے انداز میں صبح نو تجھ پر ڈورے ڈالتی ہے
غروب آفتاب کے مسافر بادل
تیرے درخشاں چہرے کا حسن پیتے، رکتے اور منڈلاتے ہیں
پر تیری اندرونی تجلی کا راز کوئی نہیں جان سکتا
کیونکہ تیرا غمزے باز روپہلا پن
جس پراسرار نیلاہٹ اور جس لطیف گلابی پن کو
اپنے میں چھپائے ہے وہ
صرف تیری جان جاں ، ہوا کے زیر اثر ہے
تیری چمکتی لہریں صرف اس کے لیے
جھلملاتی موسیقی، جو اس کے اشارے پر ہوتی ہے
ظاہر کرتی ہیں
اے جھیل، اے میری روح کی زندہ عکس
میری طرح تو
ایک وفاداری پر قائم رہتی ہے!
(سروجنی نائیڈو)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں